سوال:
ایک کی زمین ہے اور دوسرے کی تعمیر ہے، دونوں کے بیچ یہ عقد ہوا کہ دوسرا شخص پہلے شخص کی زمین پر اپنے پیسے اور سرمایہ سے ایک گھر یا عمارت بنائے گا، پھر اسے کرایہ داروں کے پاس کرایہ دے گا، جس دن کرایہ کے پیسے عمارت بنانے کے پیسے کے ڈبل ہوجائیں گے، اس دن سے زمین والا اس عمارت کا مالک ہوجائے گا، اس سے پہلے وہ کسی قسم کے کرایہ کا حق دار نہ ہوگا، کیا ایسا معاملہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں مالک نے اپنی زمین دوسرے شخص کو اس بنا پر دی ہے کہ وہ اس میں تعمیرات کرکے اس سے کرایہ داری وغیرہ کے ذریعے فائدہ اٹھالے اور پھر تعمیر سمیت زمین مالک زمین کے حوالے کردے، چنانچہ وہ اس کے بعد تعمیر کا بھی مالک ہوجائے گا، فقہی لحاظ سے یہ عقد البناء والتشغیل (B.O.T, Build, Operate & Transfor) کہلاتا ہے، جو استصناع کی بنیاد پر درست ہے، اس میں پہلا شخص (مالک زمین) مستصنع (تعمیر کرانے والا) اور دوسرا شخص صانع (بلڈر) ہے اور دوسرا شخص جو ایک مدت تک اس کو کرایہ پر چڑھا کر اس سے فائدہ اٹھائے گا، یہ در حقیقت اس معاملہ میں ثمن(معاوضہ)ہے، اس لیے جتنی مدت تک زمین بلڈر کے پاس ہوگی اس مدت کو متعین کرلیا جائے، تاکہ کسی قسم کا تنازع پیدا نہ ہو۔
تاہم یہ واضح رہے کہ تعمیر مکمل ہونے سے پہلے کسی کو کرایہ پر دینا یا پہلے سے کرایہ کی وصولی شروع کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (133/2، ط: مکتبه دار العلوم كراتشي)
عقود البناء والتشغیل:
التكييف الثاني: أن نقول : إن الدولة استصنعت المشروع من الجهة الصانعة، فالعقد الأساسي بين الجهتين هو الاستصناع، والدولة مستصنعة، والجهة الأخرى صانعة، وثمن الاستصناع منفعة تشغيل المشروع التي تنتفع بها الجهة، وتبقى الجهة الصانعة مستفيدة من المشروع على ملك الدولة. فتكون العلاقة بين الجهتين علاقة المستصنع والصانع إلى أن يكتمل.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی