سوال:
میرے اوپر حج فرض نہیں ہے، لیکن اگر میں تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے عمرہ کر لوں تو کیا میرے اوپرعمرہ کرنے کی وجہ سے حج بھی فرض ہو جائے گا؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیجیے۔
جواب: واضح رہے کہ حج کی فرضیت کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ تمام سفری اخراجات کے لیے مال اور حج کے سفر پر مکمل قادر ہونا بھی ضروری ہے، ورنہ حج فرض نہیں ہوتا ہے۔
لہذا صرف عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوگا، ہاں! اگر کوئی شخص حج کے مہینوں (شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں) میں عمرہ کے لیے جائے، اور اس نے پہلے اپنا فرض حج ادا نہ کیا ہو تو اس پر حج فرض ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ حج تک وہاں قانوناً رہ سکتا ہو اور حج تک کے اخراجات کو بھی برداشت کر سکتا ہو یا واپس آکر دوبارہ حج پر جانے اور حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، بصورت دیگر اس پر بھی حج فرض نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (آل عمران: الایة: 97)
وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ ... الخ
الھندیة: (216/1، ط: دار الفکر)
(وأما وقته فأشهر معلومات) والأشهر المعلومات شوال وذو القعدة وعشر ذي الحجة۔۔۔۔ (ومنها القدرة على الزاد والراحلة)۔۔۔ وتفسير ملك الزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبا وجائيا راكبا لا ماشيا وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه كذا في محيط السرخسي.
بدائع الصنائع: (119/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وأما كيفية فرضه فمنها: أنه فرض عين لا فرض كفاية فيجب على كل من استجمع شرائط الوجوب عينا
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی