سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص کو پیسے اس لیے کسی نے دیے کہ وہ اس سے اپنے لیے کتابیں خرید لے تو کیا وہ ان پیسوں کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرسکتا ہے؟ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی مدرسہ یا مکتب کو قرآن مجید خرید کر بچوں کو دینے کے لئے رقم دے اور اسی وقت کوئی انسان بہت زیادہ مجبور ہو ( قرض میں مبتلا ہو) تو کیا وہ قرآن مجید خریدنے کی رقم اس مجبور انسان کو دے سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ جب کوئی شخص کسی متعین مصرف میں پیسے خرچ کرنے کے لیے دیدے تو ان پیسوں کو اسی مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے، کسی اور مصرف میں اس کی اجازت کے بغیر خرچ کرنا جائز نہیں ہوتا۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں کتابوں یا مدرسہ/مکتب کے بچوں کے لیے قرآن مجید خریدنے کے لیے دی جانی والی رقم کو کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرنا یا کسی مقروض کو دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر دینے والا کسی مصرف کی تعیین کے بغیر کلی اختیار کے ساتھ رقم دے کہ جہاں چاہے رقم کو خرچ کیا جائے، تو ایسی رقم کو دیگر مصارف میں خرچ کرنا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (269/2، ط: دار الفكر)
وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل.
کتاب الفتاویٰ: (377/5، ط: زمزم ببلشرز)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی