سوال:
مفتی صاحب! میں صاحب نصاب ہوں، مجھ پر زکوة فرض ہے، البتہ مجھے چند چیزوں کی زکوة کے حوالے سے پوچھنا ہے:
1) وہ گاڑی یا زمین جو میں نے خرید کر رینٹ پر دے دی ہے، کیا ان کی قیمت پر زکوة ہے؟
2) میں نے تقریبا پچاس لاکھ روپے ایک زیر تعمیر بلڈنگ میں انویسٹ کیے ہیں، جو بننے کے بعد میں رینٹ پر دوں گا، کیا اس ادا شدہ رقم پر زکوة ہے؟
جواب: 1) کرائے پر دیے گیے پلاٹ اور گاڑی کی قیمت فروخت پر زکوة واجب نہیں ہے، البتہ زکوة کا سال مکمل ہونے پر پلاٹ اور گاڑی کی آمدن جس قدر موجود ہو، اس کی زکوة ادا کی جائے گی۔
2) جو رقم گھر کی خریداری میں ادا کر دی گئی ہے، چونکہ وہ آپ کی ملکیت سے نکل چکی ہے، لہذا زکوة کا سال مکمل ہونے پر اس رقم کی زکوة ادا کرنا آپ کے ذمہ لازم نہیں ہے۔ نیز چونکہ مذکورہ بلڈنگ کرائے پر دینے کی نیت سے خریدی گئی ہے، لہذا جواب نمبر (1) کی تفصیل کے مطابق مذکورہ بلڈنگ پر بھی زکوۃ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (21/2، ط: دار الكتب العلمية)
[فصل صفة نصاب التجارة] وأما صفة هذا النصاب فهي أن يكون معدا للتجارة وهو أن يمسكها للتجارة وذلك بنية التجارة مقارنة لعمل التجارة لما ذكرنا فيما تقدم بخلاف الذهب والفضة.
الھدایة: (100/1، ط: دار احياء التراث العربي)
قال: " ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول من جنسه ضمه إليه وزكاه به " وقال الشافعي رحمه الله لا يضم لأنه أصل في حق الملك فكذا في وظيفته بخلاف الأولاد والأرباح لأنها تابعة في الملك حتى ملكت بملك الأصل ولنا أن المجانسة هي العلة في الأولاد والأرباح لأن عندها يتعسر الميز فيعسر اعتبار الحول لكل مستفاد وما شرط الحول إلا للتيسير.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی