سوال:
مرحوم وسیم کے انتقال کے وقت اس کے ورثاء میں سے ایک بیوی، تین بیٹیاں، دو بھائی اور تین بہنیں شامل ہیں۔مرحوم کے انتقال کے وقت ان کے والدین اور دادا ، نانا وغیرہ میں سے کوئی بھی حیات نھیں تھے، لہذا مرحوم کے ورثاء کو شرعاً کتنا کتنا حصہ ملے گا؟
۲)مرحوم کے بھائیوں نے مرحوم کی بیوی اور بیٹیوں کو گھر سے بھی نکالا ہے۔ اب مرحوم کی بیوی اپنے بھائی کے ساتھ رہ رہی ہے اور مرحوم کے بھائی ان کو حصہ بھی نہیں دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مرحوم کی بیوہ بیوی پہلے اپنے بھائیوں سے اپنا حصہ لے لے، پھر ہم سے مطالبہ کرے،کیا مرحوم کے بھائیوں کا یہ فعل شرعاً درست ہے؟
۳) مرحوم کی بیٹیاں اپنی ماں کے ساتھ اپنے ماموں کے ہاں رہتی ہیں، مرحوم کے بھائی انہیں کہہ رہے ہیں کہ مرحوم کی بیٹیاں اپنے ماموں کا گھر اور اپنی ماں کو چھوڑ کر ہمارے پاس آجائیں، تب ہم ان کے حصے کے بارے میں سوچیں گے اور مرحوم کی بیوہ کو حصہ نہیں دیں گے،کیا ان کا یہ فعل شرعاً درست ہے؟
جواب: 1) مرحوم وسیم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد (مرحوم وسیم کی) کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو پانچ سو چار (504) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو تریسٹھ (63)، تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک سو بارہ (112)، دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو تیس (30) اور تینوں بہنوں میں سے ہر ایک کو پندرہ (15) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوہ کو %12.5 فیصد حصہ، تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو %22.22 فیصد حصہ، دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو %5.952 فیصد حصہ اور تینوں بہنوں میں سے ہر ایک کو %2.976 فیصد حصہ ملے گا۔
2) مرحوم بھائی کے ترکہ پر بھائیوں کا قبضہ کرکے بھابھی اور بھتیجیوں کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے۔ حدیثِ مبارک میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں: حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (کسی کی) بالشت بھر زمین بھی بطورِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:1610)
لہذا مرحوم کے بھائیوں پر لازم ہے کہ دنیا میں ہی بھابھی اور بھتیجیوں کو شریعت کے مطابق ان کا حق دے دیں، ورنہ قیامت میں سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
3) واضح رہے کہ والد کے انتقال کے بعد لڑکیوں کی پرورش کے سلسلہ میں والدہ کو نو سال کی عمر تک لڑکیوں کو اپنے پاس رکھنے کا اختیار ہوتا ہے، نو سال کے بعد سے بلوغت تک چچا کو پرورش کا اختیار ہوتا ہے اور بلوغت کے بعد انہیں (لڑکیوں کو) اختیار ہوتا ہے کہ جس کے پاس چاہے رہیں۔
لہذا چچاؤں کا بھتیجیوں کو والدہ اور ماموں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے میراث سے محروم کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُؕ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 176)
وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ... الخ
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1610، دار احیاء التراث العربی)
حدثنا يحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد وعلي بن حجر قالوا حدثنا إسمعيل وهو ابن جعفر عن العلاء بن عبد الرحمن عن عباس بن سهل بن سعد الساعدي عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من اقتطع شبرا من الأرض ظلما طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين".
الدر المختار مع رد المحتار: (567/3، ط: دار الفکر)
(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية،وأفاده بقوله (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونة على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء بحر عن الظهيرية.
(قوله: ولا خيار للولد عندنا) أي إذا بلغ السن الذي ينزع من الأم يأخذه الأب، ولا خيار للصغير لأنه لقصور عقله يختار من عنده اللعب، وقد صح أن الصحابة لم يخيروا. وأما حديث «أنه - صلى الله عليه وسلم - خير فلكونه قال اللهم اهده» فوفق لا اختيارا لا نظر بدعائه - عليه الصلاة والسلام -، وتمامه في الفتح.
(قوله: وأفاده) أي أفاد ما ذكر من ثبوت التخيير والانفراد للبالغ مع زيادة تفصيل وتقييد لذلك فافهم. (قوله: مبلغ النساء) أي بما تبلغ به النساء من الحيض ونحوه، ولو حذفه لكان أوضح. (قوله: ضمها الأب إلى نفسه) أي وإن لم يخف عليها الفساد لو حديثة السن بحر، والأب غير قيد، فإن الأخ والعم كذلك عند فقد الأب ما لم يخف عليها منهما، فينظر القاضي امرأة مسلمة ثقة فتسلم إليها كما نص عليه في كافي الحاكم، وذكره المصنف بعد. (قوله: إلا إذا دخلت في السن) عبارة الوجيز مختصر المحيط: إلا إذا كانت مسنة ولها رأي. وفي كفاية المتحفظ وفقه اللغة: من رأى البياض فهو أشيب وأشمط ثم شيخ، فإذا ارتفع عن ذلك فهو مسن رحمتي.
بدائع الصنائع: (فصل في وقت الحضانة، 42/4، ط: دار الكتب العلمية)
وأما وقت الحضانة التي من قبل النساء فالأم والجدتان أحق بالغلام حتى يستغني عنهن فيأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده كذا ذكر في ظاهر الرواية, وذكر أبو داود بن رشيد عن محمد ويتوضأ وحده يريد به الاستنجاء أي ويستنجي وحده ولم يقدر في ذلك تقديرا، وذكر الخصاف سبع سنين أو ثمان سنين أو نحو ذلك، وأما الجارية فهي أحق بها حتى تحيض كذا ذكر في ظاهر الرواية.....
وأما التي للرجال: فأما وقتها فما بعد الاستغناء في الغلام إلى وقت البلوغ وبعد الحيض في الجارية إذا كانت عند الأم أو الجدتين، وإن كانا عند غيرهن فما بعد الاستغناء فيهما جميعا إلى وقت البلوغ لما ذكرنا من المعنى. وإنما توقت هذا الحق إلى وقت بلوغ الصغير والصغيرة؛ لأن ولاية الرجال على الصغار والصغائر تزول بالبلوغ كولاية المال.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی