سوال:
مفتی صاحب! کیا خواتین ٹیچرز ویڈیو پر آن لائن اسباق پڑھا سکتی ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ خواتین ٹیچرز کے لیے بالغ یا قریب البلوغ بچوں کو ویڈیو پر آن لائن پڑھانا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کسی خاتون ٹیچر کی شدید مجبوری ہو، اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہو اور اس کے علاوہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے کمائی کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کے لیے بالغ یا قریب البلوغ بچوں کو پڑھانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ فتنے کا خوف نہ ہو، اور مکمل پردہ کے ساتھ پڑھائے، اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں وہ شوہر کی اجازت سے پڑھائے، نیز اپنی آواز بتکلف نرم نہ کرے، بلکہ اپنی فطری آواز میں ہی پڑھایا کرے، اور بچوں کے ساتھ بے تکلف باتیں اور ہنسی مذاق سے بھی مکمل اجتناب کرے۔
البتہ خاتون ٹیچر کے لیے بچیوں کو اور اسی طرح جو بچے قریب البلوغ نہ ہو، ان کو ویڈیو پر آن لائن پڑھانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ پڑھاتے وقت فتنوں سے محفوظ رہے، اور کسی غیر شرعی کام کا ارتکاب نہ کرے، نیز شادی شدہ ہونے کی صورت میں وہ شوہر کی اجازت سے پڑھائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (النور، الآية: 31)
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ o
و قوله تعالی: (الاحزاب، الآية: 32)
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا o
سنن الترمذى: (رقم الحدیث: 2165، 38/4، ط: دار الغرب الاسلامى)
عن ابن عمر قال: «خطبنا عمر بالجابية،» فقال: يا أيها الناس، إني قمت فيكم كمقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا، فقال: أوصيكم بأصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب حتى يحلف الرجل ولا يستحلف، ويشهد الشاهد ولا يستشهد، ألا لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان، عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة، فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد، من أراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة، من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك المؤمن.
هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد رواه ابن المبارك عن محمد بن سوقة، وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم.
البحر الرائق: (212/4، ط: دار الكتاب الاسلامى)
وللزوج أن يمنع امرأته عما يوجب خللا في حقه.
رد المحتار: (406/1، ط: دار الفکر)
ذکر الإمام أبو العباس القرطبي في کتابه في السماع: ولا یظن من لا فطنة عندہ أنا إذا قلنا صوت المرأۃ عورۃ، أنا نرید بذلک کلامها؛ لأن ذلک لیس بصحیح، فإنا نجیز الکلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلی ذلک، ولا نجیز لهن رفع أصواتهن ولا تمطیطها ولا تلیینها وتقطیعها، لما في ذلک من استمالة الرجال إلیهن وتحریک الشهوات منهم، ومن هذا لم یجز أن تؤذن المرأۃ، قلت: ویشیر إلی تعبیر النوازل بالنغمة.
و فيه أيضا: (600/3، ط: دار الفكر)
في التتارخانية أن للزوج منعها عما يوجب خللا في حقه.
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن کراتشی: رقم الفتوی: 144111200200
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی