سوال:
مفتی صاحب! کیا نظر بد دور کرنے کے لیے حصن حصین صفحہ 231 پر موجود دعا: جس کو نظر بد لگ جائے اس کو رسول اللہ ﷺ کے اس قول مبارک سے جھاڑ دے: بسم اللہ اللھم اذھب حرھا و بردھا و وصبھا۔ اس کے بعد کہے: قم باذن اللہ" پڑھی جاسکتی ہے؟
جواب: نظر بد کے لیے سوال میں ذکر کردہ دعا سے دم کرنا رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ثابت ہے۔
امام نسائیؒ نے اپنی کتاب "السنن الکبری" میں حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ "میں اور سہل بن حنیف غسل کے ارادے سے کسی آڑ کی تلاش میں نکلے تو ہمیں ایک آڑ میں تالاب مل گیا، لیکن ہم دونوں نے شرم و حیاء کی وجہ سے ایک دوسرے کے سامنے کپڑے نہیں اتارے، پھر سہل مجھ سے ذرا پردے میں ہوگئے، جب انہیں محسوس ہوا کہ پردے میں چلے گئے ہیں تو انہوں نے اون کا جو جبہ پہنا ہوا تھا وہ اتار دیا، جب میری نظر سہل پر پڑی تو مجھے ان کی جسامت اچھی لگی تو ان کو میری نظر لگ گئی، اس کے بعد ان کو چکر آیا اور وہ گر گئے، میں نے ان کو آواز دی لیکن ان کی طرف سے جواب نہیں آیا تو میں جلدی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں سارا ماجرا بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے ساتھ چلو۔" جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اوپر اٹھایا اور تالاب میں داخل ہو گئے، گویا کہ میں ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل کے سینے پر ہاتھ رکھا اور دعا کی: " بِاسْمِ اللّٰهِ، اَللّٰهُمَّ أذْهِبْ حَرَّهَا وَبَرْدَهَا وَوَصَبَهَا"۔ (اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں، اے اللہ! اس کے گرم اور سرد کو، اور اس کی تکلیف کو دور کردے) اور پھر فرمایا: " قُمْ بِإِذْنِ اللّٰهِ" (اللہ کے حکم سے کھڑے ہوجاؤ) تو سہل اٹھ کھڑے ہوئے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی اپنے جان و مال یا اپنے بھائی کی کسی چیز کو دیکھے اور وہ چیز اچھی لگے تو برکت کی دعا مانگے، کیونکہ نظر کا لگ جانا برحق ہے"۔ (سنن نسائی كبرى: حدیث نمبر: 10805)
مذكورہ بالا حدیث کی اسنادی حیثیت:
اس حدیث کو امام نسائیؒ نے عبداللہ بن عیسی کی سند سے اپنی کتاب "السنن الکبریٰ" میں روایت کیا ہے، اور اسی طریق سے مصنف ابن ابی شیبہ، مسندِ ابی یعلی، مسند احمد، سنن ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں بھی اس روایت کو نقل کیا گیا ہے، امام حاکمؒ نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے، اور امام ذہبیؒ نے بھی ان کی موافقت فرمائی ہے۔
امام ہیثمیؒ نے "مجمع الزوائد" (5/ 186، حدیث نمبر: 8430) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے، اور فرمایا ہے: اس حدیث کو سنن ابن ماجہ میں مختصرا نقل کیا ہے، اور امام طبرانی نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے، اس حدیث کے روایوں میں سے امیہ بن ہند "مستور" (جن کے احوال زندگی پوشیدہ) ہیں، لیکن کسی بھی محدث نے ان کو ضعیف قرار نہیں دیا ہے، ان کے علاوہ اس حدیث کے باقی راوی حدیث صحیح کے راویوں کی طرح ہیں"۔
لیکن امیۃ بن ہندؒ کو امام ابن حبانؒ نے اپنی کتاب "الثقات" میں ذکر کیا ہے، اور حافظ ابن حجرؒ عسقلانیؒ نے "تہذیب التہذیب" میں ان سے اس بات کو نقل کیا ہے اور یہ بھی اضافہ فرمایا ہے کہ امام بخاریؒ نے امیہ کے والد ہند کا ذکر اپنی "تاریخ کبیر" میں فرمایا ہے اور محمد بن اسحق رحمہ اللّٰہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ہند بن سعد بن سہل سے یہ سنا کہ سہل کی وفات عراق میں ہوئی ہے" حافظ کہتے ہیں کہ بظاہر یہ ہند انہیں امیہ کے والد ہیں۔
مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں، اور یہ حدیث معتبر اور قابلِ استدلال ہے، لہٰذا اگر کسی کو نظرِ بد لگ جائے تو اس پر یہ دعا پڑھ کر دم کرنا حدیث سے ثابت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الكبرى للنسائي: (رقم الحديث: 10805، مؤسسة الرسالة)
أخبرنا أحمد بن سليمان، قال: حدثنا معاوية بن هشام، عن عمار بن رزيق، عن عبد الله بن عيسى، عن أمية بن أبي هند، قال: قال لنا أبو عبد الرحمن كذا، قال: عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، عن أبيه، قال: خرجت أنا وسهل بن حنيف، نلتمس الخمر، فأصبنا غديرا خمرا، فكان أحدنا يستحي أن يتجرد وأحد يراه، فاستتر حتى إذا رأى أن قد فعل نزع جبة صوف عليه، فنظرت إليه فأعجبني خلقه فأصبته بعين، فأخذته قعقعة، فدعوته فلم يجبني، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته فقال: «قوموا بنا» فرفع عن ساقيه حتى خاض إليه الماء، فكأني أنظر إلى وضح ساقي النبي صلى الله عليه وسلم، فضرب صدره وقال: «باسم الله، اللهم أذهب حرها وبردها ووصبها، قم بإذن الله» فقام فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا رأى أحدكم من نفسه أو ماله أو أخيه شيئا يعجبه فليدع بالبركة، فإن العين حق.
وأخرجه ابن أبي شيبة في المصنف (12/100و 101، رقم الحديث: 24060) وابن ماجة في سننه (4/ 541، رقم الحديث: 3506) من طريق معاوية بن هشام بهذا الإسناد.
وأخرجه أحمد في مسنده (24/ 465، رقم الحديث: 15700) والحاكم في مستدركه (4/ 240، ط: رقم الحديث: 7500) من طريق وكيع عن أبيه، عن عبد الله بن عيسى، عن أمية بن هند بهذا الإسناد. وقال الحاكم: "هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه" ووافقه الذهبي في التلخيص وقال: صحيح.
والحديث ذكره الهيثمي أيضا في مجمع الزوائد (5/ 186، رقم الحديث:8430، ط: دار الفكر) عن عامر بن ربيعة به، وقال: قلت: روى ابن ماجة منه: " العين حق " فقط. رواه الطبراني وفيه أمية بن هند وهو مستور ولم يضعفه أحد وبقية رجاله رجال الصحيح.
الثقات لابن حبان: (6/ 70، دائرة المعارف العثمانية، الهند)
6772 - أُميَّة بن هِنْد بن سهل بن حنيف يروي عَن عبد الله بن عَامر بن ربيعَة روى عَنهُ عبد الله بن عِيسَى إِن كَانَ سمع من عبد الله بن عَامر.
تهذيب التهذيب: (1/ 373، ط: دائرة المعارف النظامية، الهند)
684 "س ق - أمية" بن هند المزني يعد في أهل الحجاز. روى عن أبي إمامة بن سهل بن حنيف وعبد الله بن عامر بن ربيعة وعروة بن الزبير وغيرهم. وعنه سعيد بن أبي هلال وعبد الله بن عيسى بن عبد الرحمن ابن أبي ليلى. قال عثمان الدارمي عن ابن معين: "لا أعرفه". قلت: ذكره ابن حبان في الثقات في التابعين فقال أمية بن هند عن أبي إمامة وعنه سعيد بن أبي هلال ثم ذكره في أتباع التابعين فقال: أمية بن هند بن سهل بن حنيف يروي عن عبد الله بن عامر أن كان سمع منه وعنه عبد الله بن عيسى انتهى. وهند هذا قد ذكره البخاري في التاريخ الكبير عن ابن إسحاق سمع هند بن سعد بن سهل أن سهلا توفي بالعراق فالظاهر أنه والد أمية هذا وسقط سعد عند ابن حبان والله أعلم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی