سوال:
اگر خروج ریح کے بعد مقعد پر ایسی ہلکی سی رطوبت آجائے جس کی وجہ سے ٹیشو پیپر پر ہلکا سا نشان آجائے تو کیا استنجاء ضروری ہوگا یا اتنا حساس نہیں ہونا چاہیے؟ سائل کو وضو میں تین بار اعضاء دھو کر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی عضو خشک نہ رہ گیا ہو، اسی طرح غسل میں بھی بے تحاشہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے کہ تسلی ہی نہیں ہوتی، اسی طرح استنجاء کے وقت بھی سائل اسی ٹینشن میں رہتا ہے کہ کہیں کپڑے اور بدن ناپاک نہ رہ جائیں۔
جواب: واضح رہے کہ خروجِ ریح کے بعد اگر یقینی طور پر شرمگاہ سے ہلکی سی رطوبت نکل آئے تو اس کی وجہ سے استنجاء اور وضو کرنا ضروری ہوگا، لیکن سوال میں سائل نے اپنی شک و شبہ والی جو کیفیت بیان کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل کو شک و شبہ کی وجہ سے خروج ریح کے بعد مقعد پر رطوبت محسوس ہوتی ہے، جبکہ حقیقتاً رطوبت خارج نہیں ہوتی ہے، اس کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہے، بلکہ اس طرح کی کیفیت دراصل شیطان کی طرف سے ہوتی ہے جو ایک مسلمان کو عبادت اور اللہ سے دور کرنے کے لیے حربہ کے طور پر وہ استعمال کرتا ہے، لہذا ایسی حالت میں ایک مسلمان کو ان شکوک وشبہات میں پڑھنے کے بجائے اس طرف دھیان دینا چاہیے کہ یہ در اصل شیطانی حربہ ہے جو مجھے اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت سے دور کرنا چاہتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کا حکم دیا ہے، اس لیے میں اللہ کے فضل وکرم سے اس کا مقابلہ کرکے ان شکوک وشبہات میں ہرگز نہیں پڑوں گا، یقیناً اس سوچ کو اپنانے سے ایک شکی مزاج آدمی انشاء اللہ ہر قسم کے شک اور شبہ سے محفوظ رہے گا۔
لہذا سائل کو چاہیے کہ اس سوچ اور فکر کو سامنے رکھے، اس کی وجہ سے ان شاء اللہ وہ وضو اور غسل کے معاملے میں ہر قسم کے وسوسوں سے محفوظ رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (ص: الآية: 82، 83، 84، 85)
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغۡوِیَنَّهُمۡ أَجۡمَعِینَo إِلَّا عِبَادَكَ مِنۡهُمُ ٱلۡمُخۡلَصِینَo قَالَ فَٱلۡحَقُّ وَٱلۡحَقَّ أَقُولُo لَأَمۡلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنۡهُمۡ أَجۡمَعِینَo
الدر المختار مع رد المحتار: (335/1، ط: دار الفكر)
إزالة نجس عن سبيل فلا يسن من ريح وحصاة ونوم وفصد (وهو سنة) مؤكدة مطلقا، وما قيل من افتراضه لنحو حيض ومجاوزة مخرج فتسامح. (وأركانه) أربعة شخص (مستنج، و) شيء (مستنجى به) كماء وحجر (و) نجس (خارج) من أحد السبيلين، وكذا لو أصابه من خارج وإن قام من موضعه.
(قوله: فلا يسن من ريح) لأن عينها طاهرة، وإنما نقضت لانبعاثها عن موضع النجاسة اه ح؛ ولأن بخروج الريح لا يكون على السبيل شيء فلا يسن منه بل هو بدعة كما في المجتبى بحر.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (155/43، ط: دار السلاسل )
وصرح الحنفية بأن من يعرض له الشيطان كثيرا لا يلتفت إليه، بل ينضح فرجه أو سراويله بماء حتى إذا شك حمل البلل على ذلك النضح ما لم يتيقن خلافه. وعن أحمد: لا ينضح.
قال الإمام أحمد فيمن ظن خروج شيء من البول بعد الاستنجاء: لا تلتفت إليه، حتى تتيقن، واله عنه، فإنه من الشيطان، فإنه يذهب إن شاء الله.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی