سوال:
مفتی صاحب! ایک بندہ گندم کے لیے ابھی رقم دے کر کہتا ہے کہ جب گندم اترے گی، تب سرکاری ریٹ سے ایک ہزار کم میں فی بوری لوں گا، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ خرید و فروخت کے وقت چیز کی قیمت کا فریقین کو معلوم اور متعین ہونا شرعاً ضروری ہے، قیمت متعین نہ کرنے کی صورت میں چونکہ نزاع کا اندیشہ ہوتا ہے، اس لئے خرید و فروخت کا ایسا معاملہ شرعاً فاسد ہوجاتا ہے، جس سے اجتناب لازم ہے، البتہ اگر قیمت کی تعیین کو کسی ایسے منضبط معیار (Standard) کے ساتھ مشروط کیا جائے، جس میں نزاع کا اندیشہ بالکل بھی نہ رہے تو ایسی صورت میں معاملہ کرنے کی گنجائش ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر گندم کے اترنے کے وقت اس علاقے کے سرکاری ریٹ میں کوئی فرق نہ ہو بلکہ وہ متعین(Fix) ہو، تو ایسی صورت میں چونکہ نزاع کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے، اس لئے اس دن کے سرکاری ریٹ کے حساب سے خرید و فروخت کا معاملہ کرنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (3/3، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة
بدائع الصنائع: (156/5)
(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة.فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم فلا يحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك؛ فيحصل المقصود”
فقه البیوع: (216/1 ط: معارف القرآن)
اما المتاخرون الحنفیة فاجازوا البیع بسعر السوق فیما لا تتفاوت آحادہ ولا یتغیر سعرہ لآحاد، الناس۔۔۔ تتفاوت اسعارہ بتفاوت الآحاد ولا یمکن تحدید سعرھا بمعیار منضبط معلوم۔۔۔ لان سعر السوق ان لم یکن معلوما للمتبایعین عند العقد فی مثل هذه الاشیاء اصطلاح غیر مستقر فیبقی الثمن مجهولا فاحشة تفضی الی النزاع
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی