عنوان: کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی امانت کے پیسوں پر کسی رشتہ دار کا اپنے لیے ہبہ کا دعوی کرنا (14629-No)

سوال: میری خالہ کے بیٹے نے میرے پاس کچھ رقم بطور امانت رکھوائی تھی، اب اس کا انتقال ہوگیا ہے، جو غیر شادی شدہ تھا، اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے والدین بھی وفات پا چکےہیں، البتہ اس کی کچھ خالائیں اور ماموں حیات ہیں اور ان کی اولادیں بھی ہیں۔ اس کی ایک خالہ کی بیٹی کی طرف سے تقاضا ہے کہ مرحوم نے مرنے سے پہلے کہا تھا کہ مرحوم کے جو پیسے میرے پاس بطور امانت رکھیں ہوئے ہیں، وہ اس کو دے دیے جائیں، البتہ اس بات کی تصدیق کیلئے کسی کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں۔ براہ کرم آپ رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب: سوال میں ذکر کرده الفاظ "جو پیسے میرے پاس بطور امانت رکھیں ہیں، وہ اس کو دے دیے جائیں" شرعاً ہبہ (گفٹ) کے ہیں، وصیت کے نہیں ہیں، اور ہبہ کے درست ہونے کے لیے محض ہبہ کے الفاظ کا ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ہبہ کردہ چیز موہوب لہ (جس شخص کو ہبہ کیا جارہا ہے) کے قبضہ میں دینا بھی ضروری ہے، چونکہ مذکورہ صورت میں مرحوم نے اپنی حیات میں اس رقم کا قبضہ اپنی خالہ کی بیٹی کو نہیں دیا تھا، لہذا یہ ہبہ شرعاً درست نہیں ہوا ہے۔
اور اگر مرحوم نے ان الفاظ کا اضافہ بھی کیا ہو کہ "میرے مرنے کے بعد یہ رقم میری خالہ کی بیٹی کو دی جائے" تو اگرچہ یہ الفاظ شرعاً وصیّت کے ہیں، لیکن چونکہ اس دعوی پر مدّعی کے پاس شرعی گواہ نہیں ہیں، لہذا اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا اور بہر دو صورت مذکورہ رقم پر مرحوم کی ملکیت اس کی وفات تک برقرار سمجھی جائے گی، اس لیے اب مرحوم کی وفات کے بعد یہ رقم مرحوم کے شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔
نوٹ: سوال میں چونکہ مرحوم کے دادا، دادی، نانی، چچا، چچا کی اولاد اور ذوی الارحام رشتہ داروں (مثلاً: پھوپھی، ماموں، خالا) کا ذکر تفصیل سے موجود نہیں ہے، لہذا اس رقم میں شرعی ورثاء کا حصہ معلوم کرنے کے لیے مرحوم کے رشتہ داروں کی تفصیل وضاحت کے ساتھ لکھ کر دوبارہ سوال بھیجیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الهندية: (400/4، ط: دار الفكر)
قال في الأصل: ولا تجوز هبة المريض ولا صدقته إلا مقبوضة فإذا قبضت جازت من الثلث وإذا مات الواهب قبل التسليم بطلت، يجب أن يعلم بأن هبة المريض هبة عقدا وليست بوصية واعتبارها من الثلث ما كانت؛ لأنها وصية معنى؛ لأن حق الورثة يتعلق بمال المريض وقد تبرع بالهبة فيلزم تبرعه بقدر ما جعل الشرع له وهو الثلث، وإذا كان هذا التصرف هبة عقدا شرط له سائر شرائط الهبة ومن جملة شرائطها قبض الموهوب له قبل موت الواهب، كذا في المحيط.

و فیه ایضاً: (90/6، ط: دار الفكر)
أما الأول فكقوله: وهبت هذا الشيء لك، أو ملكته لك، أو جعلته لك، أو هذا لك، أو أعطيتك، أو نحلتك هذا، فهذا كله هبة

و فیه ایضاً: (90/6، ط: دار الفكر)
الإيصاء في الشرع تمليك مضاف إلى ما بعد الموت يعني بطريق التبرع سواء كان عينا أو منفعة، كذا في التبيين

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 405 Jan 31, 2024
kisi shakhs ke marne ke baad uski amanat ke paise per kisi rishte dar ka apne liye hiba ka dawa karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.