سوال:
گیارہ سال پہلے میرے بڑے بھائی نے امی سے یہ کہہ کر کہ "میں سب سے چھوٹے بھائی کے لیے کمرے بنواؤں گا اور اس کی شادی کرونگا اور گھر کو مکمل کروا دونگا" والدہ سے مکان اپنے نام کروا لیا، اور اس کے بقول اس نے اپنے نام اس لئے کروایا تھا کہ بینک سے قرض لیکر اوپر بیان کردہ اخراجات کروں اور پھر قرض ادا کرنے کے بعد مکان واپس کر دونگا۔ مکان اپنے نام کروانے میں اس نے والدہ کو بہت بہلایا، پھسلایا اور سبز باغ دکھائے، ساتھ میں گواہ کے طور پر مجھے بھی ساتھ لے گیا۔ جب مکان اس کے نام ہوگیا تو اس نے کچھ خرچے کر کے مکان واپس نہیں کیا اور دس سال تک جھوٹ بولتا رہا کہ مکان میرے نام نہیں ہوا اور ہم بھی یقین کرتے رہے۔ اب پچھلے سال امی کو پتہ چلا کہ مکان امی کے نام نہیں ہے، بڑے بھائی کے نام پر ہے اور جب ہم نے بھائی کو بتایا کہ یہ تو تم نے اپنے نام کروالیا ہے اور تم ہم سے جھوٹ بولتے رہے ہو تو اس نے دو سال سے گھر آنا بھی چھوڑ دیا ہے اور مکان واپس نہیں کر رہا ہے۔
یہ مکان والدہ صاحبہ کا تھا جو ان کو میرے والد مرحوم نے حق مہر میں دیا تھا، مالکن والدہ تھیں، پھر انہوں نے بھائی کے کہنے پر اس شرط پر عارضی طور پر بھائی کو دیا تھا کہ وہ بھائی مکان مکمل کروا کر واپس والدہ کے نام کر دے گا، مگر آج تک واپس نہیں کیا، پہلے دس سال جھوٹ بولا، اب واپس نہیں دے رہا۔ پوچھنا یہ ہے کہ یہ بھائی کے پاس ناجائز ہے یا حلال ہے؟
ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم اس پر کیس کرسکیں، والدہ صاحبہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ہیں، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ مکان بھائی کی ملکیت ہے یا والدہ کی میراث میں تقسیم ہوگا؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت (والدہ کا مکان عارضی طور پر بڑے بیٹے کے نام کرنا) اگر حقیقت پر مبنی ہے تو یہ مکان والدہ کا ہی شمار ہوگا اور ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
لہذا بڑے بیٹے پر لازم ہے کہ والدہ مرحومہ کے تمام ورثاء کو ان کا حق و حصہ اس دنیا میں دے دے، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، حدیثِ مبارک میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (کسی کی) بالشت بھر زمین بھی بطورِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1610)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 188﴾
وَلَا تَأْكُلُوٓا أَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَٰطِلِ ... الخ
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1610)
حدثنا يحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد وعلي بن حجر قالوا حدثنا إسمعيل وهو ابن جعفر عن العلاء بن عبد الرحمن عن عباس بن سهل بن سعد الساعدي عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من اقتطع شبرا من الأرض ظلما طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين".
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"
الفتاوی الھندیة: (378/4، ط: دار الفکر)
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار،هكذا في الفصول العمادية.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی