سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں کبھی کبھی محفل قراءت منعقد ہوتی ہے، اس میں مختلف مقامات سے قراء حضرات آتے ہیں، جب قاری صاحب تلاوت کرتے ہیں تو سامعین کبھی اللہ اکبر اور کبھی سبحان اللہ وغیرہ جیسے الفاظ کہتے ہیں، تاکہ قاری صاحب کو جوش آجائے۔ پوچھنا یہ ہے کہ ایسا کہنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ قرآن کریم کى تلاوت کو پورے وقار اور ادب کے ساتھ سننے کا حکم دیا گیا ہے، ارشاد بارى تعالى ہے:
ترجمہ: "اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو کان لگا کر سنو، اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحمت ہو"۔ (سورہ الاعراف: آیت نمبر :204)
لہذا محفل حسنِ قراءت میں بلند آواز سے چلّا چلّا کر اس طرح داد دینا کہ جس سے محفل گونجنے لگے، ایسا کرنا قرآن کریم سننے کے آداب کے خلاف ہے، نیز بعض اوقات ایسى داد موقع محل کے مطابق بھى نہیں ہوتى ہے، کیونکہ ہمارے علاقوں میں اکثر سامعین کو قرآن کریم کا معنی سمجھ نہیں آتا ہے اور وہ محض قارى صاحب کے خوبصورت لہجہ میں پڑھى گئى آیات پر "سبحان اللہ، ما شاء اللہ" کى داد دے رہے ہوتے ہیں، جبکہ ان آیات میں کسى وعید یا عذاب کا بیان ہوتا ہے، اس لیے تلاوت کے دوران خاموش رہنا چاہیے، اگر اچھى قراءت کا طبیعت پر زیادہ اثر ہو تو جب قارى صاحب تلاوت کے دوران تھوڑى دیر کو خاموش ہوں تو اس دوران آہستہ آواز میں وقار کے ساتھ داد دینے میں حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (الأعراف، الآية: 204)
وَ اِذَا قُرِیٴَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَo
البحر الرائق: (كتاب السير، 82/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)
"وقال الإمام شمس الأئمة السرخسي ففي هذا الحديث بيان كراهة رفع الصوت عند سماع القرآن، والوعظ فتبين به أن ما يفعله الذين يدعون الوجد، والمحبة مكروه ولا أصل له في الدين وتبين به أنه يمنع المتقشفة وحمقى أهل التصوف مما يعتادونه من رفع الصوت وتمزيق الثياب عند السماع؛ لأن ذلك مكروه في الدين عند سماع القرآن".
رد المحتار: (كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فروع، 519/1، ط: دار الفكر- بيروت)
"قال في الهندية: رفع الصوت عند سماع القرآن والوعظ مكروه، وما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة لا أصل له، ويمنع الصوفية من رفع الصوت وتخريق الثياب، كذا في السراجية. اه".
واللہ تعالى أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچى