عنوان: تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے درمیان تقسیم میراث(1476-No)

سوال: ایک شخص کا انتقال ہوا، اس کے چند ورثاء تھے، اس کے ایک داماد نے کہا کہ میں یہ متروکہ گھر خرید لیتا ہوں اور اس کی قیمت کی ادائیگی آہستہ آہستہ کرتا رہوں گا، اس کی جائیداد کا اس کے داماد نے ایک کروڑ پینتالیس لاکھ میں سودا کرلیا، اس میں سے ایک بیٹے کو پورا حصہ دیدیا، جبکہ دوسرے بیٹے کو کچھ حصہ دیدیا۔ اس کے بعد داماد مزید رقم ادا نہیں کر پایا اور جائیداد ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ میں آگے دوسرے شخص کو فروخت کردی۔ بہنوئی یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے ابھی کے اعتبار سے زائد پیسے دو، اس لیے کہ جب میں نے حصہ دیا تھا، اس وقت ویلیو الگ تھی اور اب الگ ہے۔ کیا بہنوئی کا مطالبہ درست ہے؟
معلوم یہ کرنا ہے کہ جس بیٹے کو پورا حصہ دیدیا تھا، کیا اس کو نئی رقم کے اعتبار سے مزید حصہ دینا ہوگا؟ اسی طرح جس بیٹے کو تھوڑا حصہ دیا تھا، اس کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟

جواب: (1) قرض  کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض لیاجائے، اتنی ہی مقدار قرض دار پر واپس کرنا لازم ہے، چاہے جتنے عرصے بعد واپسی ہو، قرض میں دی گئی رقم کی مالیت گھٹنے یا بڑھنے کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے، چنانچہ شریعت مطہرہ کا مسلمہ اصول ہے کہ ’’الدیون تقضیٰ بأمثالها‘‘ یعنی قرضوں کی واپسی ان قرضوں کے مثل (برابر) سے ہی ہوگی، لہذا بہنوئی کی ادا شدہ رقم کی حیثیت قرض کی ہے اور قرض میں موجودہ ویلیو سے ادائیگی یا منافع لینے کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، لہذا بہنوئی صرف مکان کی مد میں دی ہوئی رقم پچپن لاکھ بیانوے ہزار آٹھ سو ستاون روپے لینے کے حقدار ہونگے۔
(2)صورت مسئولہ میں بہنوئی کو جائیداد فروخت کرنے کے بعد ادائیگی نہ کر پانے کی صورت میں آپس کی رضامندی سے بہنوئی کو رقم لٹا کر جائیداد واپس لے لینا شرعاً "اقالہ" ہے۔
اقالہ پہلے معاملہ کو فسخ کرنے کو کہتے ہیں اور اقالہ میں جتنے میں چیز خریدی تھی، اتنی ہی رقم میں واپس کرتے ہیں۔
لہذا ایک لڑکے کو جو پرانی قیمت کے اعتبار سے اس کا حصہ دیا تھا، معاملہ فسخ ہونے کی وجہ سے اس کو دیا ہوا حصہ بھی فسخ ہو گیا، اس لڑکے کو وہ رقم واپس کرنا ہوگی اور نیا معاملہ ہونے کی صورت میں جو نئی رقم کے اعتبار سے اس کا حصہ بنے گا، وہ حصہ اس کو دیا جائیگا۔
(3) مرحوم والدین کی تجھیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی میں وصیت نافذ کرنے کے بعد تین بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو سینتالیس لاکھ چودہ ہزار دو سو پچاسی روپے اور کچھ پیسے اور بہن کو تیئس لاکھ ستاون ھزار ایک سو بیالیس روپے اور کچھ پیسے ملینگے۔
فیصد کے اعتبار سے لڑکی کو % 14.28 فیصد
ہر ایک لڑکے کو % 28.57 فیصد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (مطلب الدیون تقضی بأمثالہا، 848/3، ط: سعید)
الدیون تُقضی بأمثالہا۔

بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (ص: 174، ط: دار القلم)
والذي یتحقق في النظر في دلائل القرآن والسنۃ ومشاہدۃ معاملات الناس أن المثلیۃ المطلوبۃ في القرض ہي المثلیۃ في المقدار والکمیۃ، دون المثلیۃ في القیمۃ والمالیۃ۔

الھندیۃ: (الباب السابع و العشرون في القرض و الدین، 366/5، ط: زکریا)

بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (ص: 174، ط: دار القلم)
القروض یجب في الشریعۃ الإسلامیۃ أن تُقضی بأمثالہا۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 666 May 12, 2019
teen betoon aur aik beti k darmiyan taqseem e meraas

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.