عنوان: مرض الوفات میں وصیت کا حکم(1491-No)

سوال: السلام علیکم،
مفتی صاحب !
میری ایک پھوپھی جو غیر شادی شدہ اور ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں، انکا ابھی دسرے روزے کو انتقال ہوا ہے، انہوں نے وفات سے کچھ دن پہلے میری بہن ( ماریہ ) کو بلا کر اپنے سونے ( گولڈ ) کے بارے میں یہ وصیت کی کہ جو تمھارے پاس میں نے سونا رکھوایا ہے، اس میں سے اتنا فلاں کو دے دینا، پھر باقی جو بچے وہ تم رکھ لینا تو انکی اِس وصیت پر عمل کر کے میری بہن اپنے پاس رکھ سکتی ہے یا یہ بتانا پڑیگا ؟ جب کہ زندگی میں بھی کہتی تھیں کہ جو میرا سونا ہے وہ میں ماریہ کو دونگی، انہوں نے ہوش و حواس میں یہ کہا تھا میری بہن کو
اور جب میری بہن کو یہ کہا انہوں نے کہ تمھارا ہو گیا جو باقی بچے تو میری بہن نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیئے بس آپ پھر سے اپنے پیروں میں کھڑی ہو جائیں،
اور انہوں نے میرے ابو اور دوسری پھوپھو کے سامنے بھی یہ کہا کہ اس گولڈ میں سے فلاں چیز فلاں کو دے دینا، تو اب وضاحت کردیجئے کہ کیا کرنا چاہیے؟ اسکو وارثوں میں باٹ دیا جائے یا انکی اِس وصیت پر عمل کیا جائے پہلے ؟

جواب: واضح رہے کہ میت اگر وفات سے قبل اپنے شرعی وارث کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے وصیت کرے، تو یہ وصیت ترکہ کے ایک تہائی تک نافذ ہوتی ہے، بقیہ دو تہائی میں ورثاء کا حق ہے۔
 اوراگر وصیت کسی وارث کے لیے کی ہو، تو وہ معتبر نہیں ہے، ایک تہائی کے علاوہ میں تمام ورثاء کا حق ہے، ہاں ! اگر وہ اپنی خوشی سے اجازت دے دیں تو یہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2744، 3/4، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، حدثنا زكرياء بن عدي، حدثنا مروان، عن هاشم بن هاشم، عن عامر بن سعد، عن أبيه رضي الله عنه، قال: مرضت، فعادني النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، ادع الله أن لا يردني على عقبي، قال: «لعل الله يرفعك وينفع بك ناسا»، قلت: أريد أن أوصي، وإنما لي ابنة، قلت: أوصي بالنصف؟ قال: «النصف كثير»، قلت: فالثلث؟ قال: «الثلث، والثلث كثير أو كبير»، قال: فأوصى الناس بالثلث، وجاز ذلك لهم

مصنف عبد الرزاق: (70/9، ط: المکتب الاسلامی)
عن عمرو بن خارجة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا وصية لوارث»

الھندیۃ: (90/6، ط: دار الفکر)
تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية۔۔۔۔ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة، ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك، كذا في فتاوى قاضي خان.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1398 May 12, 2019
marazul alwafaat mai wasiyyat ka hukum, Ruling on will in case of death / near to dying

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.