سوال:
اگر غیر مسلم پڑوسی یا دوست ( جان پہچان ) والے کی طرف سے اگر كھانا آئے ، اور اس میں گوشت بھی ہو ، تو کیا قبول کیا جا سکتا ہے ؟ اور کیا کھایا جا سکتا ہے ؟
اکثر لوگوں سے سننے میں آتا ہے کہ اگر گوشت کے حرام ہونے کا اگر مکمل یقین نہیں ہے اور ابہام ہے تو پِھر بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہو جاتا ہے۔
جواب: واضح رہے کہ شریعت میں گوشت کے معاملے میں بہت احتیاط کرنے کی تاکید آئی ہے، لہذا گوشت کسی مسلمان کے ہاتھ کا ذبیحہ ہونا ضروری ہے، اگر غیر مسلم پڑوسی یا دوست گوشت یا اس سے بنا ہوا کھانا ھدیہ میں دے، تو اسلامی مروت کے تقاضہ سے اس کو اس صورت میں قبول کر سکتے ہیں، جبکہ یقین سے اس کے حلال ہونے کا علم ہو اور اگر یقین سے اس گوشت کے حلال ہونے کا علم نہیں ہے، تو اسے بالکل استعمال نہیں کر سکتے ہیں اور یہ خیال کہ "بسم اللہ کہنے سے وہ حلال ہوجائے گا " درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مختصر القدوری: (کتاب الذبائح، ص: 276)
"وذبیحۃ المسلم والکتابی حلال ولاتؤکل ذبیحۃ المرتد والمجوسی والوثنی والمحرم وان ترک التسمیۃ عمدًا فالذبیحۃ میتۃ لاتؤکل وان ترکھا ناسیًا أکل ".
الاختیار لتعلیل المختار: (کتاب الذبائح، 9/5)
"والذکاۃ الاختیاریۃ وھی الذبح فی الحلق واللبۃ والاضطراریۃ وھی الجرح فی ای موضع اتفق وشرطھما التسمیۃ وکون الذابح مسلماً او کتابیًا".
کنزالدقائق: (کتاب الذبائح)
الھندیۃ: (347/5)
"ولا بأس بالذهاب إلى ضيافة أهل الذمة".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی