عنوان: پرائز بانڈ کا شرعی حکم(1507-No)

سوال: مفتی صاحب ! کیا پرائز بانڈ کا خریدنا صحیح ہے؟

جواب: پرائز بانڈ کے ذریعہ حاصل ہونے والی رقم میں" سود " اور  "جوا" دونوں حیثیتیں موجود ہیں، اس لیے پرائز بانڈ کی خرید و فروخت ناجائز اور حرام ہے۔
تفصیل یہ ہے کہ جو رقم خریدار نے پرائزبانڈ کی خریداری کی صورت میں دی ہے، اس رقم کی حیثیت قرض کی ہے، اور قرض دے کر اس پر اضافہ لینا "سود " ہے، خواہ قرض کی اصل رقم پر اضافی رقم کا ملنا یقینی ہو یا اضافی رقم ملنے کااحتمال موجود ہو، اس اعتبار سے پرائز بانڈ کی لین دین جائز نہیں ہے۔
دوسری حیثیت یہ ہے کہ بہت سے لوگ مخصوص رقم دے کر پرائزبانڈ کی دستاویز حاصل کرتے ہیں، ہرشخص کی نیت یہی ہوتی ہے کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ  میرا نام نکلے اور انعامی رقم حاصل کرسکوں، چند افراد کا کسی مالیاتی اسکیم میں اس طور پر رقم لگانا کہ کسی ایک کو یا چند مخصوص افراد کو اضافی رقم ملے اور بقیہ افراد اضافی رقم سے محروم رہیں،  یہ "جوئے "کی ایک صورت ہے، اس حیثیت سے بھی پرائز بانڈ کا لین دین ناجائز ہے۔
لہٰذا پرائزبانڈ سے حاصل ہونے والی انعامی رقم "سود "اور"جوئے" پرمشتمل ہونے کی بنا پر حرام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo

صحیح مسلم: (227/2)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.

عمدۃ القاری: (435/8)
الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔

مصنف ابن ابی شیبہ: (کتاب البیوع و الاقضیہ، 483/4، ط: مکتبة الرشد)
عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".

رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحة، 403/6، ط: سعید)
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2276 May 14, 2019
prize bond ka shar'ee hukum, Shariah ruling on prize bonds

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.