عنوان: حمل میں جان پڑنے کے بعد بچہ دانی کے پھٹنے کی وجہ حمل ضائع کروانے کا حکم (15691-No)

سوال: میرے چھ حمل ضائع ہوئے ہیں اور میری تین بیٹیاں آپریشن سے ہوئی ہیں، اب جو میرا حمل ٹھہرا ہے، وہ بچہ فانی کے باہر جہاں آپریشن کے ٹانکے ہیں، وہاں ٹھہرا ہے جس میں جان بھی ہے اور گروتھ بھی ہورہی ہے۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ یہ بہت خطرناک ہے جوکہ ضائع کرنا ہوگا، کیونکہ رکھنے کی صورت میں آپریشن کے ٹانکے اور بچہ دانی دونوں کے پھٹنے کا خطرہ ہے، چھ ڈاکٹروں نے یہی مشورہ دیا ہے، اب اس حالت میں میرے لیے کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر حمل میں جان پڑگئی ہے تو اس کو ساقط کروانا جائز نہیں ہے، کیونکہ جان پڑنے کے بعد حمل کو ضائع کروانا ایک انسانی جان کو قتل کرنا ہے، جو کہ ناجائز اور حرام ہے، تاہم اگر ماہر اور دیانت دار ڈاکٹر حضرات کی رائے یہ ہو کہ حمل کو ضائع کیے بغیر آپریشن کے ٹانکے اور بچہ دانی دونوں کے پھٹنے کے یقینی خطرہ کی وجہ سے یہ غالب گمان ہے کہ بچہ پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو جائے گا یا پیدائش کے بعد زندہ نہیں بچے گا اور انتظار کی صورت میں ماں کی جان کو یقینی خطرہ ہو تو اس صورت میں مذکورہ حمل ضائع کرنے کی گنجائش ہوگی، لیکن اس صورت میں بھی حتی الامکان بچے کی جان بچانے کی کوشش کی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (429/6، ط: دار الفکر)
"و يكره أن تسقى لإسقاط حملها ... وجاز لعذر حيث لايتصور."
(قوله: و يكره إلخ) أي مطلقًا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل (قوله: وجاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل و انقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا: يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ليس بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية (قوله: حيث لايتصور) قيد لقوله: وجاز لعذر والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلك.‘‘

الفتاوی الهندية: (356/5، ط: دار الفکر)
’’رجل عزل عن امرأته بغير إذنها لما يخاف من الولد السوء في هذا الزمان فظاهر جواب الكتاب أن لايسعه وذكر هنا يسعه لسوء هذا الزمان كذا في الكبرى. وله منع امرأته من العزل كذا في الوجيز للكردري. وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان. العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز ... وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية. و لايجوز للمرضعة دفع لبنها للتداوي إن أضر بالصبي كذا في القنية. امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان. والله أعلم‘‘.

كذا في تبويب فتاوى دار العلوم كراتشي ، رقم الفتوى: 1617/45

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 396 Feb 15, 2024
hamal me jaan parhne ke bad bacha dani ke phatne ki waja hamal zaya karne ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Medical Treatment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.