عنوان: عدت کے کچھ ایام کرایہ کے گھر میں گزارنا اور پھر وہاں سے نکلنے کی صورت میں ان دنوں کا عدّت میں شمار کرنا(15697-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا ہے کہ ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہوا تو وہ لوگ کرایہ کے گھر میں تھے، تیرہ دن بعد اس کرایہ کے گھر کو چھوڑنا پڑا، کیونکہ مالک مکان نے گھرخالی کرنے کا کہا تھا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا وہ عورت عدت کے ان تیرہ دنوں کو بھی شامل کرے گی یا الگ سے نئے سرے سے عدت شمار کرے گی؟ جبکہ اس عورت کا کہنا ہے کہ میں نے مکمل پردے کے ساتھ گھر شفٹ کیا ہے، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

جواب: پوچھی گئی صورت میں یہ تیرہ دن بھی عدت میں شمار ہوں گے، کیونکہ عدت طلاق یا وفات کے فوراً بعد شروع ہو جاتی ہے، چاہے عورت جہاں اور جس حالت میں بھی ہو، البتہ عورت جس گھر میں وفات یا طلاق کے وقت موجود ہو، اسی گھر میں اس کا عدت گزارنا واجب ہے اور جب تک کوئی معتبر شرعی عذر نہ ہو، اس گھر کو چھوڑ کر کہیں اور جاکر عدت گزارنا جائز نہیں ہے، تاہم مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً خاتون نے مالک مکان کے کہنے یا کرایہ ادا نہ کرسکنے کے عذر کی وجہ سے وہ گھر چھوڑا ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (520/3، ط: دار الفكر)
(ومبدأ العدة بعد الطلاق و) بعد (الموت) على الفور (وتنقضي العدة وإن جهلت) المرأة (بهما) أي بالطلاق والموت لأنها أجل فلا يشترط العلم بمضيه سواء اعترف بالطلاق، أو أنكر.

رد المحتار: (3 /520، ط: دار الفكر)
قال في الشرنبلالية: قوله: وابتداؤها عقيبهما أي عقيب الطلاق والموت.

الدر المختار: (3 /536، ط: دار الفکر)
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.

رد المحتار: (3 /536، ط: دار الفکر)
(قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية. (قوله: ولا يخرجان) بالبناء للفاعل، والمناسب " تخرجان " - بالتاء الفوقية -؛ لأنه مثنى المؤنث الغائب أفاده ط. (قوله: إلا أن تخرج) الأولى الإتيان بضمير التثنية فيه وفيما بعده ط، وشمل إخراج الزوج ظلما، أو صاحب المنزل لعدم قدرتها على الكراء، أو الوارث إذا كان نصيبها من البيت لا يكفيها بحر: أي لا يكفيها إذا قسمته لأنه لا يجبر على سكناها معه إذا طلب القسمة، أو المهايأة ولو كان نصيبها يزيد على كفايتها.
(قوله: أو لا تجد كراء البيت) أفاد أنها لو قدرت عليه لزمها من مالها، وترجع به المطلقة على الزوج إن كان بإذن الحاكم كما مر. (قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا. (قوله: فتخرج) أي معتدة الوفاة كما دل عليه ما بعده ط.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 449 Feb 16, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Iddat(Period of Waiting)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.