سوال:
میرا نکاح ہو چکا ہے مگر ابھی تک رخصتی عمل میں نہیں آئی۔ نکاح کو ڈیڑھ برس گزر چکے ہیں اور اب میں علیحدگی (طلاق) چاہتی ہوں۔ چونکہ نکاح نافذ ہو چکا ہے اور باہمی قربت (ہمبستری) بھی ہو چکی ہے، اس لیے میرے ذہن میں یہ سوال ہے کہ کیا عدّت کو ٹالنے یا کم کرنے کی کوئی صورت موجود ہے؟ کیونکہ میں زیرِ تعلیم ہوں اور دورانِ سمسٹر اپنی پڑھائی روکنا میرے لیے ممکن نہیں۔ میرے ایک سمسٹر کی فیس دس لاکھ روپے ہے، اس لیے یہ میرے لیے بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔"
جواب: میاں بیوی کے درمیان نکاح کا حلال تعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے، بلا وجہ طلاق لینا اور نکاح کے نعمت کو ختم کرنا ناشکری اور کفرانِ نعمت میں آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے، اس لیے بلا وجہ طلاق نہیں لینی چاہیے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو عورت بغیر کسی مجبوری کے اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر:2226)
جہاں تک عدت سے متعلق آپ کا سوال ہے تو واضح رہے کہ رحضتی یا خلوتِ صحیحہ کے بعد دی جانے والی طلاق کے بعد عدّت گزارنا ایک محکم حکم ہے، جو قرآن مجید سے ثابت ہے، اس کو ٹالنا یا اس کے دورانیہ کو مختصر کرنا ممکن نہیں ہے۔ چونکہ عدتِ طلاق میں معتدّہ کے لیے ضرورتِ شدیدہ کے علاوہ گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، اس لیے آپ کو چاہیے کہ طلاق ہونے کی صورت میں سمسٹر منجمد (freeze) کروا کر شرعی طریقۂ کار کے مطابق عدت پوری کریں، اس طرح شرعی حکم پر عمل کرکے آپ گناہ سے بھی بچ جائیں گی اور سمسٹر فیس کی وجہ سے مالی نقصان بھی نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (سورة البقرة، رقم الآیۃ: 228)
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ O
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث:5274، ط: دارالرسالة العالمیة)
عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ابغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق" وَالْمُرْتَشِي۔
وفیہ ایضاً: (باب في الخلع، رقم الحدیث:2226)
عن ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما امراة سالت زوجها طلاقا في غير ما باس، فحرام عليها رائحة الجنة".
الدر المختار: (536/3، ط: دار الفكر)
(و تعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.
الهندية: (534/1، ط: دار الفكر)
إن كانت معتدة من نكاح صحيح وهي حرة مطلقة بالغة عاقلة مسلمة، والحالة حالة الاختيار فإنها لا تخرج ليلا ولا نهارا سواء كان الطلاق ثلاثا أو بائنا أو رجعيا كذا في البدائع
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی