سوال:
ایک خاتون جن کی عمر سینتیس سال ہے، ان کو دس محرم کو تین طلاقیں ہوئی تھیں، ان کے ہارمونز کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے حیض نہیں آرہا ہے، کافی علاج کروایا ہے اب ڈاکٹروں نے بھی لاعلاج کر دیا ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ ان کو حمل نہیں ہے طلاق کو سات ماہ ہوگئے ہیں، کیا اس خاتون کی عدت مکمل ہوگئی ہے اور کیا اس کا دوسری جگہ نکاح کر سکتے ہیں؟
تنقیح: محترم اس بات کی وضاحت کردیں کہ مذکورہ عورت کو شروع ہی سے حیض نہیں آرہا یا یہ کہ پہلے آتا تھا بعد میں حیض کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
نہیں! طلاق کے بعد بھی ایک حیض ہوا ہے، اس کے بعد علاج کروایا اور پھر ڈاکٹروں نے لا علاج کر دیا۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اصل حکم یہ ہے کہ مذکورہ عورت ماہواری کے ختم ہونے کی عمر (جو کہ پچپن سال ہے) تک انتظار کرنے کے بعد تین ماہ کی عدت گزار کر کہیں اور نکاح کرسکتی ہے، تاہم اگر اتنے لمبے عرصہ تک اس کے لیے انتظار کرنا مشکل ہو اور واقعتاً علاج و معالجہ کے باجود مذکورہ عورت کی ماہواری کا سلسلہ دوبارہ بحال نہیں ہوسکا ہے تو ایسی مجبوری کی صورت میں طلاق کے وقت سے ایک سال کی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا اس کے لیے جائز ہے۔
البتہ اگر سال مکمل ہونے سے پہلے ماہواری کا سلسلہ دوبارہ بحال ہوجائے تو پھر نئے سرے سے تین ماہواری کے ذریعے عدت مکمل کرنا ضروری ہوگا۔
واضح رہے کہ فقہ حنفی کے مطابق جس عورت کی ماہواری کا سلسلہ منقطع ہوجائے تو اس کی عدت کے بارے میں اصل حکم یہ ہے کہ وہ ماہواری آنے تک انتظار کرے، جب اس کو تین ماہواریاں آجائیں، تب اس کی عدت مکمل ہوگی، اور اگر اس کو بالکل ماہواری نہ آئے تو جب اس کی عمر سنِ ایاس (پچپن سال) کو پہنچ جائے تو اس کے بعد وہ تین مہینے گزار کر اپنی عدت مکمل کرے گی، لیکن فقہ مالکی کے مطابق ایسی عورت کی عدت ایک سال میں پوری ہوجائے گی، اور ضرورت کے وقت اِس مسئلہ میں فقہاء احناف نے فقہ مالکیہ کے مطابق فتویٰ دینے کی صراحت کی ہے، بشرطیکہ علاج ومعالجہ کے باجود ماہواری کا سلسلہ دوبارہ بحال نہ ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (508/3، ط: دار الفكر)
الشابة الممتدة بالطهر بأن حاضت ثم امتد طهرها، فتعتد بالحيض إلى أن تبلغ سن الإياس جوهرة وغيرها، وما في شرح الوهبانية من انقضائها بتسعة أشهر غريب مخالف لجميع الروايات فلا يفتى به. كيف وفي نكاح الخلاصة: لو قيل لحنفي ما مذهب الإمام الشافعي في كذا وجب أن يقول قال أبو حنيفة كذا، نعم لو قضى مالكي بذلك نفذ كما في البحر والنهر، وقد نظمه شيخنا الخير الرملي سالما من النقد فقال:
لممتدة طهرا بتسعة أشهر ... وفا عدة إن مالكي يقدر ومن بعده لا وجه للنقض هكذا ... يقال بلا نقد عليه ينظر.
(قوله: هكذا يقال) يعني ينبغي أن يقال مثل هذا القول الخالي من نقد واعتراض ينظر به عليه لا كما قال بعضهم من أنه يفتى به للضرورة. اه.ح.
قلت: لكن هذا ظاهر إذا أمكن قضاء مالكي به، أو تحكيمه، أما في بلاد لا يوجد فيها مالكي يحكم به فالضرورة متحققة، وكأن هذا وجه ما مر عن البزازية والفصولين، فلا يرد قوله: في النهر إنه لا داعي إلى الإفتاء بقول نعتقد أنه خطأ يحتمل الصواب مع إمكان الترافع إلى مالكي يحكم به اه تأمل، ولهذا قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون بقول مالك في هذه المسألة للضرورة. اه.
ثم رأيت ما بحثته بعينه ذكره محشي مسكين عن السيد الحموي وسيأتي نظير هذه المسألة في زوجة المفقود حيث قيل إنه يفتى بقول مالك إنها تعتد عدة الوفاة بعد مضي أربع سنين.
امداد الفتاویٰ: (485/2، ط: مکتبه دار العلوم کراتشی)
احسن الفتاوی: (435/5، ط: سعید)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی