سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میں اس سال اعتکاف میں بیٹھنے کا ارادہ رکھتا ہوں، میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے دورانِ اعتکاف چند گھنٹوں کے لیے لیپ ٹاپ یا موبائل کے ذریعے سہہ ماہی اکاؤنٹس چیک کرنے ہونگے اور سوالات اور مشورے کیلئے ٹیم سے رابطہ میں رہنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور اس سے اعتکاف کی صحت پر کوئی فرق تو نہیں پڑے گا؟
جواب: اعتکاف کے دوران سامان مسجد میں لائے بغیر خرید و فروخت کا ایسا معاملہ کرنا جو اپنے یا اپنے اہل و عیال کے لیے ضروری ہو، شرعاً جائز ہے، البتہ معتکف کے لیے باقاعدہ کاروبار کرنا یا تجارتی معاہدہ کرنا مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر ان اکاؤنٹس کا چیک کرنا اور لیپ ٹاپ استعمال کرنا اپنے یا بال بچوں کے لیے ضروری ہو اور کسی دوسرے طریقے یا کسی اور شخص کے ذریعے یہ کام انجام دینا ممکن نہ ہو تو بقدر ضرورت اس کی گنجائش ہوگی، لیکن اگر اس کا مقصد تجارت کرنا ہو یا کسی اور طریقے سے اسے کرنا ممکن ہو تو اعتکاف کے دوران یہ کام کرنا جائز نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (448/2، ط: دار الفکر)
(وخص) المعتكف (بأكل وشرب ونوم وعقد احتاج إليه) لنفسه أو عياله فلو لتجارة كره (كبيع ونكاح ورجعة).
(قوله فلو لتجارة كره) أي وإن لم يحضر السلعة واختاره قاضي خان ورجحه الزيلعي لأنه منقطع إلى الله تعالى فلا ينبغي له أن يشتغل بأمور الدنيا بحر.
الفتاوى الهندية: (213/1، ط: دار الفکر)
ولا بأس للمعتكف أن يبيع ويشتري الطعام، وما لا بد منه، وأما إذا أراد أن يتخذ متجرا فيكره له ذلك هكذا في فتاوى قاضي خان والذخيرة وهو الصحيح هكذا في التبيين.
الهداية: (130/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
"ولا بأس بأن يبيع ويبتاع في المسجد من غير أن يحضر السلعة"؛ لأنه قد يحتاج إلى ذلك بأن لا يجد من يقوم بحاجته إلا أنهم قالوا يكره إحضار السلعة للبيع والشراء؛ لأن المسجد محرز من حقوق العباد وفيه شغله بها ويكره لغير المعتكف البيع والشراء فيه لقوله عليه الصلاة والسلام "جنبوا مساجدكم صبيانكم"إلى أن قال"وبيعكم وشراءكم".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی