سوال:
مفتی صاحب! میری اہلیہ جب چار ماہ کی تھی تو انہیں ایک خاتون نے تمام قانونی کاروائی کے بعد لے پالک بنا لیا تھا اور یہ بات میری اہلیہ کو شادی سے چند دن پہلے بتائی گئی تھی، جس کو میری اہلیہ نے دلی طور پر تسلیم نہیں کیا تھا، کیونکہ وہ انہی خاندان کے ساتھ اور ان کے شوہر کے ساتھ بحیثیت بیٹی منسلک رہی تھی اور یہ تعلق آخر تک قائم و دائم رہا۔ تمام تر کاغذات میری اہلیہ کے والدین میں انہی کا نام موجود ہے، جنہوں نے اس کو لے پالک بنایا تھا، حقیقی والدین کا نام کہیں ذکر نہیں ہے۔ میری اہلیہ کو گود لینے والی خاتون کا 11 فروری 2024 کو انتقال ہو گیا ہے، ان کے ورثاء میں دو بہنیں اور دو بھتیجے ہیں، ان کے علاوہ ان کا کوئی وارث نہیں ہے، مرحومہ نے ترکے میں ایک فلیٹ اور نقدی میں 33 لاکھ 9 ہزار 817 روپے اور 21 پیسے چھوڑے ہیں جو دو مختلف بینک اکاؤنٹ میں رکھے ہوئے ہیں۔
مرحومہ کی تدفین کے بعد تمام ورثاء نے جمع ہو کر مرحومہ کے تمام ترکہ کا ذمہ دار اور مالکہ میری اہلیہ کو متعین کر دیا تھا۔ تاہم بروز جمعہ 17 فروری کو مرحومہ کی ایک بہن نے مجھے کال کر کے مجھے یہ کہا کہ مجھے مرحومہ کا ایک بیڈ اور UPS دے دیں۔ نیز مرحومہ نے اپنا فلیٹ انڈس ہسپتال کے نام بعد از مرگ ہدیہ کر دیا تھا، جس کی دستاویز بھی موجود ہے، لیکن مرحومہ کی انہی بہن کا کہنا یہ ہے کہ کہ ہمارا فلیٹ انڈس کو دے دیا جائے اور ان کی مرحومہ بہن کا فلیٹ بدلے میں ان کو دے دیا جائے۔
یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ میں یعنی انیل احمد بحیثیت داماد فروری کی چھ تاریخ سے تا حال مرحومہ کی بیماری اور تجویز و تکفین، نیز یوٹیلٹی اخراجات اور فلیٹ یونین اور ماسی وغیرہ کے اخراجات ادا کر رہا ہوں۔ مندرجہ ذیل تفصیلات کی روشنی میں درجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
١) شرعی اعتبار سے یہ مکان انڈس ہسپتال کی ملکیت ہے یا ورثاء کی؟
٢) اگر وصیت کے مطابق فلیٹ انڈس ہسپتال کی ملکیت ہے تو پورا مکان ہسپتال کا ہے یا صرف ایک ثلث؟
٣) کیا میرے کیے ہوئے اخراجات میں ان کے ترکہ سے لے سکتا ہوں؟
۴) شرعی اعتبار سے تمام ورثاء مرحومہ کے ترکہ کے حقدار ہیں یا صرف میری اہلیہ اس کی مالکہ ہے؟
۵) اگر وہ سب ترکہ کے حقدار ہیں تو کل ترکہ کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
تنقیح:
محترم! چند باتوں کی وضاحت فرمائیں:
(1) مرحومہ نے اپنا فلیٹ انڈس ہسپتال کو دینے کے لیے جو الفاظ لکھے ہیں، ان الفاظ کو تحریر فرمائیں۔
(2) آپ نے اخراجات کرتے ہوئے مرحومہ سے قرض وغیرہ کی کوئی وضاحت کی تھی یا نہیں؟
(3) مرحومہ کے ورثاء نے اپنے حصوں پر قبضہ کرکے لے پالک بیٹی کو مالک بنایا ہے یا صرف زبانی کہا ہے؟
ان تمام باتوں کی وضاحت فرمائیں، اس کے بعد ہی آپ کے سوال کو جواب دیا جاسکے گا۔ جزاک اللہ خیرا
جواب تنقیح:
(1) مرحومہ نے زندگی میں ہی انڈس ہسپتال والوں سے یہ ایگریمنٹ کیا تھا کہ میرا گھر جب تک میں زندہ ہوں میرے پاس رہے گا اور میرے مرنے کے بعد انڈس ہسپتال کا ہوگا۔
(2) بغیر کسی وضاحت کے مرحومہ پر خرچ کیے تھے۔
(3) مرحومہ کے ورثاء نے اپنے حصوں پر قبضہ کیے بغیر لے پالک بیٹی کو زبانی طور پر ذمہ دار اور مالک بنایا ہے۔
نوٹ: لے پالک بیٹی اور مرحومہ کے تمام ورثاء مرحومہ کا فلیٹ انڈس ہسپتال کو دینے پر رضامند ہیں اور تمام ورثاء بالغ ہیں۔
جواب: (1,2) واضح رہے کہ موت کے بعد اپنی کسی ملکیتی چیز کے وقف کو معلق کرنا وصیت کے حکم میں ہوتا ہے اور انتقال کے بعد ورثاء پر ایک تہائی تک جائز وصیت کو نافذ کرنا لازم ہوتا ہے، البتہ اگر تمام ورثاء بالغ ہوں اور وہ ایک تہائی سے اوپر کی گئی وصیت کو نافذ کرنے پر بخوشی رضامند ہوں تو ایک تہائی سے اوپر کی گئی وصیت بھی پوری کرنے کی اجازت ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں مرحومہ کے یہ الفاظ "میرا گھر جب تک میں زندہ ہوں میرے پاس رہے گا اور میرے مرنے کے بعد انڈس ہسپتال کا ہوگا" وصیت کے الفاظ ہیں، لہذا اگر تمام ورثاء مرحومہ کا فلیٹ انڈس ہسپتال کو دینے کے لیے بخوشی راضی ہوں (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) تو ان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔
(3) چونکہ مرحومہ کے علاج وغیرہ پر رقم قرض کی صراحت یا واپسی کے معاہدہ کے بغیر خرچ کی تھی تو یہ رقم خرچ کرنے والے کی طرف سے تبرع و احسان ہوگا، اس رقم کی واپسی کا مطالبہ یا مرحومہ کی میراث میں سے وصول نہیں کیا جاسکتا، البتہ اگر ورثاء اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد یا اپنی طرف سے آپ کو یہ رقم واپس کردیں تو بہت اعلیٰ ظرفی کی بات ہے۔
(4) واضح رہے کہ شریعت کی طرف سے وراثت ایک لازمی حق ہے جو کہ وارث کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی ملکیت میں شامل ہو جاتا ہے، نیز یہ بھی واضح رہے کہ لے پالک کا اپنے سرپرست کی میراث میں شرعاً کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے، البتہ ورثاء میراث میں سے اپنے حصہ پر قبضہ کرکے لے پالک کو کچھ دینا چاہیں تو اس کی اجازت ہے۔
لہذا ورثاء کا مرحومہ کی میراث میں سے اپنے حصوں پر قبضہ کیے بغیر مرحومہ کی لے پالکہ بیٹی کو مالک بنانا درست نہیں ہے۔
ہاں! ترکہ تقسیم ہوجانے اور اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد وہ اپنا حصہ مرحومہ کی لے پالکہ بیٹی کو مالکانہ تصرف اور قبضہ کے ساتھ لے پالک بیٹی کو دینا چاہیں تو ایسا کرنا شرعاً جائز اور معتبر ہوگا۔
(5) مرحومہ کی کل رقم کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے دونوں بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو دو (2) حصے اور دونوں بھتیجوں میں سے ہر ایک بھتیجے کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
اس تقسیم کی رو سے تینتیس لاکھ نو ہزار آٹھ سو سترہ روپے اور اکیس پیسوں (3309817.21) میں سے دونوں بہنوں میں سے ہر ایک کو گیارہ لاکھ تین ہزار دو سو بہتر روپے اور چالیس پیسے (1103272.40) ملیں گے اور دونوں بھتیجوں میں سے ہر ایک کو پانچ لاکھ اکیاون ہزار چھ سو چھتیس روپے اور بیس پیسے (551636.20) ملیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 176)
إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ... الخ
التفسیر المظھری: (284/7)
فلا یثبت بالتبنی شئی من الاحکام البنوة من الارث وحرمة النکاح وغیر ذلک۔
صحیح مسلم: (كِتَابُ الْوَصِيَّةِ، بَابُ الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ، رقم الحدیث: 1628، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن مصعب بن سعد ، عن ابيه ، قال: " عادني النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: اوصي بمالي كله، قال: لا، قلت: فالنصف، قال: لا، فقلت: ابالثلث، فقال: نعم والثلث كثير ".
البحر الرائق مع منحة الخالق: (208/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)
والحاصل أنه إذا علقه بموته كما إذا قال إذا مت فقد وقفت داري على كذا فالصحيح أنه وصية لازمة لكن لم تخرج عن ملكه فلا يتصور التصرف فيه ببيع ونحوه بعد موته لما يلزم من إبطال الوصية وله أن يرجع قبل موته كسائر الوصايا وإنما يلزم بعد موته
(قوله فظاهره أنه لا يلزم لو علقه بموته إلخ) أنت خبير بأن كلام المصنف في زوال الملك لا في اللزوم لأنه قال والملك يزول بالقضاء وأما التعليق بالموت فإنه يفيد اللزوم لا زوال الملك وزوال الملك به خلاف الصحيح كما أفاده كلام الهداية المذكور ومعنى اللزوم هنا أنه وصية لازمة لا وقف لأنه لو كان وقفا لزال الملك به.
الدر المختار: (648/6، ط: دار الفکر)
(هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) عينا كان أو دينا. قلت: يعني بطريق التبرع ليخرج نحو الإقرار بالدين فإنه نافذ من كل المال كما سيجيء ولا ينافيه وجوبها لحقه تعالى فتأمله.
الفتاوی الھندیة: (90/6، ط: دار الفکر)
تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية
الأشباہ و النظائر: (ما یقبل الاسقاط من الحقوق، ص: 309، ط: قدیمی)
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك".
تنقیح الفتاوی الحامدیة: (کتاب الکفالة، 288/1، ط: دار المعرفة)
"المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
الدر المختار: (774/6، ط: دار الفکر)
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی