عنوان: "ہمیں مہمان کے لیے ایسى چیز کے تکلف سے منع کیا گیا ہے جو ہمارے بس میں نہ ہو" اس حدیث کى تحقیق (15810-No)

سوال: مفتی صاحب! مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق درکار ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص مہمان کے لیے اپنی طاقت سے بڑھ کر تکلف نہ کرے۔ (شعب الایمان: 9273)

جواب: سوال میں مذکور روایت جس کا مفہوم یہ ہے کہ مہمان کے لیے اپنی گنجائش سے زیادہ بے جا تکلف کرنا ممنوع ہے، یہ ممانعت حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ سے مروى حدیث میں مذکور ہے، اس روایت کو متعدد کتبِ حدیث میں مختلف طرق واسانید سے نقل کیا گیا ہے، ان سب کے مجموعے کے پیشِ نظر محدثین کے نزدیک یہ حدیث "حسن" درجہ کى ہے، نیز اس روایت کے شواہد بھى موجود ہیں، لہذا اس روایت کو بیان کیا جا سکتا ہے، ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ ومفہوم، تخریج وتحقیق، اس روایت کى اسنادى حیثیت کو ذکر کیا جاتا ہے:
اس حدیث کى چار اسانید ہیں:
1- حسين بن محمد، عن سليمان بن قرم۔
2- قيس بن الربيع، عن عثمان بن شابور۔
3- الحسين بن الرماس، عن عبد الرحمن بن مسعود العبدي۔
4-عمرو بن مرة المرادی، عن أبي البختري۔
مذکورہ بالا طرق سے جو حدیث مذکور ہے اس میں حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ کا اپنے مہمانوں کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کو بیان کیا گیا ہے، بعض طرق میں تفصیل کے ساتھ ،بعض میں اختصار کے ساتھ اور بعض طرق میں کچھ الفاظ کا بھى فرق ہے، ذیل میں ہر طریق کا ترجمہ، تخریج اور اس کى اسنادى حیثیت بیان کى جائے گى، ساتھ ساتھ جہاں اس طریق کا دوسرے طرق سے الفاظ کا فرق ہے، اس کو بھى نمایاں کیا جائے گا تاکہ واقعے کى جزوى تفصیلات بھى سامنے آ سکیں۔
1- طریق حسين بن محمد، عن سليمان بن قرم
ترجمہ:
شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک رفیق حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کى خدمت میں حاضر ہوئے، تو انہوں نے ہمارى ضیافت کے لیے(گھر میں دستیاب چیزوں میں سے) روٹى اور نمک پیش کیا اور یہ فرمایا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تکلف کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا، تو ہم آپ کے لیےضرور تکلف کرتے، کھانے کے دوران میرے رفیق نے کہا: اگر ہمارے نمک میں "سعتر" ہوتا تو کیا ہى اچھا ہوتا (سعتر ایک جڑى بوٹى تھى جو کھانے کو خوش ذائقہ کرنے کے لیےاستعمال ہوتى تھى)، اس پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اپنا لوٹا سبزی فروش کی دکان کى طرف بھجوایا اور اس کو سبزى فروش کے پاس گروى رکھوا کر اس سے "سعتر" لا کر کھانے میں شامل فرمایا، جب ہم کھانا تناول کر چکے تو میرے رفیق نے کہا: اللہ تعالی کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں دیے گئے رزق پر قناعت کى توفیق عطا فرمائى ہے، اس پر حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اللہ کے دیے ہو ئے رزق پر قناعت کرتے، تو میرا لوٹا سبزى فروش کى دکان پر گروى نہ رکھا ہوا ہوتا۔
(معجم کبیر للطبرانی: حدیث نمبر: 6085)
اس طریق کے بعض مصادر میں یہ الفاظ بھى ہیں: "آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مہمان کے لیے تکلف کرنے سے منع فرمایا ہے"، ایک کتاب میں یوں الفاظ ہیں: "آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسى چیز کے تکلف سے منع فرمایا ہے، جو ہمارے پاس موجود نہ ہو"۔
تخریج الحدیث:
اس حدیث کو "حسين بن محمد، عن سلیمان بن قرم" کے طریق سے درج ذیل کتبِ حدیث میں محدثین کرام نے اپنى سند سے نقل فرمایا ہے:
1) امام ابن أبی الدنیا رحمہ اللہ (م 281ھ) کى کتاب"الجوع لابن أبي الدنيا" (ص160، رقم الحديث (266)، ط: دار ابن حزم)۔
2) امام بزار رحمہ اللہ (م292ھ) کى کتاب "مسند البزار" (6/ 482، رقم الحدیث (‌2514)، ط: مکتبۃ العلوم والحکم)۔
3) امام طبرانى رحمہ اللہ (م360ھ) کى کتاب "المعجم الكبير" (6/ 235، رقم الحدیث (‌6084)، ط: مکتبۃ ابن تیمیۃ)۔
4) حافظ ابن عدى رحمہ اللہ (م 365ھ) کى کتاب "الكامل في ضعفاء الرجال" (4/ 239، ط: الکتب العلمیۃ)۔
5) امام حاکم رحمہ اللہ (م405ھ) کى کتاب "المستدرك على الصحيحين" (4/ 136 ، رقم الحدیث (7146)، ط: دار الکتب العلمیۃ)۔
6) حافظ حمزہ السہمی رحمہ اللہ (م 427ھ) کى کتاب "تاريخ جرجان" (ص162، ط: عالم الکتب)۔
7) امام بیہقی رحمہ اللہ (م 458ھ) کى کتاب "الآداب للبيهقي" (ص30، رقم الحدیث (73)، ط: مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ)۔
8) امام بیہقی رحمہ اللہ (م458ھ) کى کتاب "شعب الإيمان" (12/ 127 ، رقم الحدیث (9153)، ط: مكتبۃ الرشد)۔
9) حافظ ابو القاسم الأصبہانى رحمہ اللہ (م 535ھ) کى کتاب "الترغيب والترهيب" (3/ 39، رقم الحديث (2031)،‌ط: دار الحدیث)۔
طریق حسين بن محمد، عن سليمان بن قرم کى اسنادى حیثیت:
1) حافظ ابن عدى رحمہ اللہ (م365ھ) نے "الکامل" 4/238 میں "سليمان بن قرم" كے تذکرے میں فرمایا ہے: یحیى بن معین رحمہ اللہ سے ان کے متعلق دریافت کیا گیا، تو انہوں نے ان کے متعلق فرمایا: یہ کوئى قابل ذکر شخصیت نہیں ہیں اور انہوں نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے، نیز "سلیمان بن قرم" کى دیگر احادیث کے ساتھ ساتھ زیر بحث یہ روایت بھى ابن عدی نے اپنى کتاب "الکامل" میں نقل فرمائى ہے، پھر ان کے تذکرے کے آخر میں اپنا تبصرہ ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے: "سلیمان بن قرم کى کوفیین اور بصریین سے اور بھى احادیث منقول ہیں اور یہ احادیث حسن اور منفرد ہیں اور یہ "سلیمان بن أرقم" سے بہت زیادہ بہتر ہیں"۔
2) امام حاکم رحمہ اللہ (م405ھ) نے "المستدرك على الصحيحين" 4/ 136، میں اس حدیث کو "سلیمان بن قرم" کے طریق سے نقل کر نے کے بعد فرمایا ہے: "اس حدیث کى سند صحیح ہے اور اس حدیث کو امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنى صحیح بخاری و صحیح مسلم میں نقل نہیں فرمایا ہے اور اس حدیث کا شاہد اس جیسى سند کے ساتھ بھى موجود ہے"۔
3) حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م748ھ) نے "تلخیص المستدرک" میں امام حاکم رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا تبصرے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
4) حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (م807ھ) نے "مجمع الزوائد" 8/179 میں امام طبرانی کى "سلیمان بن قرم" کے طریق سے نقل کى گئى روایت کا حوالہ دے کر فرمایا ہے: اس حدیث کو امام طبرانى نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کى سند کے راوى حدیث ِصحیح کے راوى ہیں، سوائے محمد بن منصور الطوسى کے، وہ البتہ ثقہ راوى ہیں۔
خلاصہ: "سلیمان بن قرم" کے طریق سے یہ حدیث محدثین کے نزدیک "صحیح الإسناد" ہے۔
2- طریق قيس بن الربيع، عن عثمان بن شابور:
ترجمہ: اس طریق میں حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ سے مروى مرفوع الفاظ وہى ہیں، جو سلیمان بن قرم کے طریق میں مذکور ہوئے ہیں، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ شقیق بن سلمہ کا بیان بعض کتب میں یہ ہے کہ کوئى شخص حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ کے گھر حاضر ہوا، بعض کتب میں یہ مذکور ہے کہ شقیق بن سلمہ اکیلے حاضر ہوئے، ایک کتاب میں ہے کہ ابو وائل حاضر خدمت ہوئے، نیز ایک کتاب میں مذکور ہے کہ حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ نے مہمان کے سامنے "جَو" کى روٹى اور نمک پیش کیا۔
تخریج الحدیث:
اس حدیث کو "قيس بن الربيع عن عثمان بن شابور" کے طریق سے درج ذیل کتبِ حدیث میں محدثین کرام نے اپنى سند سے نقل فرمایا ہے:
1) امام ابن المبارک رحمہ اللہ (م181ھ) کى کتاب "الزهد والرقائق" (ص493، رقم الحدیث (1404-1408)، ط: مجلس إحیاء المعارف-الھند)۔
2) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م241ھ) کى کتاب "مسند أحمد" (39/ 136 ، رقم الحدیث (23733)ط: مؤسسۃ الرسالة)۔
3) ابن أبی خیثمہ رحمہ اللہ (م 279ھ) کى کتاب "التاريخ الكبير لابن خيثمة-السفر الثالث" (3/ 190، ط: الفاروق الحديثة)۔
4) امام بزار رحمہ اللہ (م292ھ) کى کتاب "مسند البزار" (6/ 482، رقم الحدیث (2515)، ط: مکتبۃ العلوم والحکم)۔
5) امام ابو جعفر الطبری رحمہ اللہ (م310ھ) بحوالہ "شرح صحيح البخاري لابن بطال "(9/ 312، ط: مكتبة الرشد)۔
6) محدث محاملی رحمہ اللہ (م 330ھ) کى کتاب "أمالي المحاملي رواية ابن يحيى البيع"(ص284، رقم الحديث (289)،ط: دار ابن القيم)۔
7) امام طبرانی رحمہ اللہ (م360ھ) کى کتاب "المعجم الكبير " (6/ 235، رقم الحدیث (6083)، ط: مکتبۃ ابن تیمیۃ)۔
8) امام ابن عساکر رحمہ اللہ (م571ھ) کى کتاب "تاريخ دمشق لابن عساكر"(13/ 126)،ط: دار الفكر)۔
طریق قيس بن الربيع، عن عثمان بن شابور کى اسنادى حیثیت:
1) قیس بن ربیع: حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ (م852ھ) نے "تقريب التهذيب" ص457، رقم (5573)ط: دار الرشيد، میں "قیس بن الربیع " کے متلق فرمایا ہے: یہ صدوق ہیں، لیکن سن رسیدہ ہونے کے بعد ان میں تغیر آ گیا تھا اور ان کے بیٹے نے ان کے ذخیرہ احادیث میں ایسى احادیث کو شامل کر دیا تھا، جو ان کى سند سے مروى نہ تھیں، چنانچہ انہوں نے شامل کى گئى احادیث کو بھى بیان کیا ہے، ان کا شمار محدثین کے ساتویں طبقے میں ہے، (یعنی جن محدثین سے بہت سے حضرات نے حدیث روایت کى ہے، لیکن ان کو ثقہ قرار نہیں دیا گیا ہے، یعنى یہ مستور اور مجہول الحال راوى ہیں)۔
2) عثمان بن شابور: ان کے متعلق محدثین نے کوئى جرح وتعدیل نقل نہیں کى ہے، کتب رجال میں ان کا تذکرہ صرف تعارف کى حد تک ہے، امام دارقطنى رحمہ اللہ (م385ھ)، ابن ماکولا رحمہ اللہ (م475ھ) نے "الإکمال" میں اور سمعانی رحمہ اللہ (م562ھ) نے "الأنساب" میں نقل کیا ہے، لہذا ان کا حال مجہول ہے۔
خلاصہ: قیس بن ربیع کے طریق سے یہ حدیث ضعیف ہے۔
3- طریق الحسين بن الرماس، عن عبد الرحمن بن مسعود العبدي
ترجمہ:
حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے کہ ہم مہمان کے لیے ایسى چیز کا تکلف نہ کریں جو ہمارے پاس دستیاب نہ ہو اور ہمیں یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم گھر میں دستیاب چیز مہمان کى خدمت میں بطور ضیافت پیش کریں۔
(التاريخ الكبير للبخاري: 2/ 386)
فائدہ: اس طریق کے بعض مصادر میں ہے یہ الفاظ ہیں: "ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مہمان کے لیے تکلف کرنے سے منع فرمایا ہے"، ایک کتاب میں یہ الفاظ ہیں: رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں کوئى شخص بھى ہرگز اپنے مہمان کے لیے ایسى چیز کا تکلف نہ کرے جس کى وہ طاقت نہیں رکھتا ہے"۔
تخریج الحدیث:
اس حدیث کو "حسین بن رماس العبدی عن عبد الرحمن بن مسعود العبدى" کے طریق سے درج ذیل کتبِ حدیث میں محدثین کرام نے اپنى سند سے نقل فرمایا ہے:
1) امام بخارى رحمہ اللہ (م256ھ) کى کتاب "التاريخ الكبير" (2/ 386، ط: دائرۃ المعارف العثمانیۃ)۔
2) حافظ خرائطى رحمہ اللہ (م327ھ) کى کتاب "مكارم الأخلاق للخرائطي" (ص116، رقم الحدیث (329)، ط: دار الآفاق العربیۃ)۔
3) امام طبرانى رحمہ اللہ (م360ھ) کى کتاب "المعجم الكبير للطبراني"(6/ 271، رقم الحدیث (6187)، ط: مکتبۃ ابن تیمیۃ)۔
4) امام حاکم رحمہ اللہ (م405ھ) کى کتاب "المستدرك على الصحيحين" (4/ 137 ، رقم الحدیث (7147)، ط: دار الکتب العلمیۃ)۔
5) حافظ ابو نعيم الأصبهاني رحمہ الله (م 430ھ) کى کتاب "تاريخ أصبهان" (1/ 82، ط: دار الکتب العلمیۃ)۔
6) امام بیہقی رحمہ اللہ (م458ھ) کى کتاب "شعب الإيمان" (12/ 128 ، رقم الحدیث (9154-9155)، ط: مکتبۃ الرشد)۔
7) خطیب بغدادى رحمہ اللہ (م463ھ) کى کتاب "تاريخ بغداد" (8/ 578 ، ط: دار الغرب الإسلامی)۔
8) امام ابو منصور رحمہ اللہ (م558ھ) کى کتاب "مسند الفردوس) بحوالہ "الغرائب الملتقطۃ" (7/ 447، رقم الحديث (2923)، ط: جمعية دار البر)۔
طریق الحسين بن الرماس، عن عبد الرحمن بن مسعود العبدي کى اسنادى حیثیت:
1) حسین بن رماس: خطيب بغدادى رحمہ اللہ (م 463ھ) نے "تاریخ بغداد" جلد 8 ص 579، میں نقل "حسین بن رماس "کے تذکرے میں نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ان کے متعلق دریافت کیا گیا: تو انہوں نے فرمایا: یہ اہل مدائن میں سے ہیں، اور ان میں کوئى قابل اشکال بات نہیں ہے۔
2) عبد الرحمن بن مسعود العبدى: حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ (م 852ھ) نے "تقریب التہذیب" ص 630، میں ابو الجویریۃ عبد الرحمن بن مسعود العبدی کو محدثین کے چھٹے طبقے میں سے مقبول قرار دیا ہے۔
3) امام حاکم رحمہ اللہ (م 405ھ) نے اپنى کتاب "مستدرک" میں یہ حدیث نقل کر کے اس حدیث کى سند کے صحیح ہونے کى طرف اشارہ فرمایا ہے، حافظ ذہبى رحمہ اللہ (م748ھ) نے "تلخیص مستدرک" میں اس حدیث کى سند کو "لین" قرار دیا ہے۔
البتہ اس حدیث کے متابعات موجود ہیں جس وجہ سے اس طریق کو "حسن لغیرہ" کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
خلاصہ: حسین بن رماس کے طریق سے یہ حدیث "حسن لغیرہ" ہے۔
4- طریق عمرو بن مرة، عن أبي البختري الطائی:
ترجمہ:
ابو البخترى الطائی حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں ان کے پاس ان کے ساتھیوں میں سے کچھ لوگ آئے، تو حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے روٹى اور نمکین مچھلى رکھى اور کہا: کھاؤ، ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے تکلف سے منع فرمایا ہے، اگر آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نہ ہوتا، تو ہم تمہارے لیے ضرور تکلف کرتے۔
(كتاب الأربعين على مذهب المتحققين لأبي نعيم الأصبهاني: ص 70، حدیث نمبر: 50)
تخریج الحدیث:
اس حدیث کو حافظ ابو نعیم الأصبہانى رحمہ اللہ (م430ھ) نے اپنى کتاب " الأربعين على مذهب المتحققين" (ومنها رفضهم للتصنع والتكلف صيانة للتكرم والتعفف، ص 70، رقم الحديث (35)، ط: دار ابن حزم) میں نقل فرمایا ہے۔
طریق عمرو بن مرة، عن أبي البختري الطائى کى اسنادى حیثیت:
امام ترمذى رحمہ اللہ (م279ھ) نے "العلل الکبیر" ص 386، میں نقل فرمایا ہےکہ ابو البخترى الطائى کى ملاقات حضرت سلمان فارسى رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، لہذا انہوں نے یہ مرسلا روایت کى ہے،نیز اس حدیث کى سند کے راوى اسماعیل البصرى کا حال معلوم نہیں ہے، لہذا یہ عمرو بن مرۃ عن أبى البخترى کى یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے۔
مذکورہ بالا حدیثِ سلمان فارسى رضی اللہ عنہ کے شواہد:
1- حدیث عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ:
حضرت انس بن مالك رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ ہم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کى خدمت میں حاضر تھے، تو انہوں نے فرمایا: ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔
(صحیح بخارى: حدیث نمبر :7293)
2- حدیث جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما:
ترجمہ:
محارب بن دثار سے مروى ہے کہ وہ ایک مرتبہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کے ہاں حاضر ہوئے، تو انہوں نے ضیافت میں روٹى اور سرکہ پیش کیا، پھر فرمایا: بے شک رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تکلف کرنے سے منع فرمایا ہے، اگر آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پاک نہ ہوتا، تو میں تمہارے لیے ضرور تکلف کرتا اور بے شک میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادسنا ہے: "سرکہ بہترین سالن ہے"۔
(مسند ابى حنیفہ بروایت حارثى: حدیث نمبر: 400)
ترجمہ: عبد اللہ بن عبید بن عمیر سے مروى ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کے پاس نبى اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کى ایک جماعت حاضر ہوئى، تو انہوں نے ان کى ضیافت میں روٹى اور سرکہ پیش کیا اور ان سے فرمایا: کھاؤ، بے شک میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "بہترین سالن سرکہ ہے، بے شک اس شخص پر ہلاکت ہو کہ اس کے پاس اس کے بھائیوں کى جماعت آئے اور وہ اپنے گھر میں موجود کھانے کى چیزوں کو ان کى ضیافت میں پیش کرتے ہوئے ان چیزوں کو حقیر جانے اور ان لوگوں پر بھى ہلاکت ہو کہ جو چیز انہیں ضیافت میں پیش کى جائے تو وہ اسے حقیر سمجھیں"۔
(مسند أحمد: حدیث نمبر: 14985)
حدیث کا حکم:
اس حدیث کو حافظ منذرى رحمہ اللہ (م 656ھ) نے اپنى کتاب"الترغیب والترھیب" 3/253، امام احمد، امام طبرانى اور امام ابو یعلى کے حوالے سے نقل کر کے فرمایا ہے: ان میں سے بعض کى سند حسن درجے کى ہے اور "سرکہ بہترین سالن ہے" یہ حدیث صحیح میں مذکور ہے اور "ہلاکت ہو ایسے آدمى پر۔۔۔الخ" شاید یہ حضرت جابر کے کلام کا حصہ ہو اور یہ الفاظ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً مروى نہ ہوں، واللہ أعلم۔
خلاصہ بحث: مہمان کے لیے اپنی گنجائش سے زیادہ بے جا تکلف کى ممانعت سے متعلق یہ حدیث ثابت ہے اور مذکورہ بالا چاروں طرق کے مجموعے اور ان کے شواہد ومتابعات سے یہ بات واضح ہوتى ہے کہ یہ حدیث "حسن "درجے کى ہے، لہذا اس حدیث کو بیان کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الجوع لابن أبي الدنيا: (ص: 160، رقم الحديث: 266، ط: دار ابن حزم)
حدثني إبراهيم بن سعيد الجوهري، قال: حدثنا حسين بن محمد، قال: حدثنا سليمان بن قرم، عن الأعمش، عن شقيق، قال: دخلت أنا وصاحب لي على سلمان، فقرب إلينا خبزا وملحا، وقال: "لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا عن التكلف لتكلفنا لكم"، فقال صاحبي: لو كان في ملحنا سعتر؟ فبعث مطهرة إلى البقال، فرهنها، فجاءه بسعتر.

مسند البزار: (رقم الحدیث: 2514، ط: مکتبة العلوم و الحکم)
حدثنا إبراهيم بن سعيد، قال: أخبرنا حسين بن محمد، قال: أخبرنا سليمان بن قرم، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن سلمان رضي الله عنه، قال: نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نتكلف للضيف ما ليس عندنا.

المعجم الكبير للطبراني: (235/6، رقم الحدیث: 6084، 6085، ط: مکتبة ابن تیمیة)
‌حدثنا الحسين بن إسحاق التستري، ثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري، ثنا حسين بن محمد، عن سليمان بن قرم، عن الأعمش، عن شقيق، عن سلمان قال: نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نتكلف للضيف.
حدثنا محمد بن عبدوس بن كامل السراح، ثنا محمد بن منصور الطوسي، ثنا حسين بن محمد، ثنا سليمان بن قرم، عن الأعمش، عن شقيق بن سلمة قال: ذهبت أنا وصاحب لي إلى سلمان الفارسي، فقال سلمان:لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا عن التكلف لتكلفت لك، ثم جاء بخبز ولحم، فقال صاحبي: لو كان في ملحنا صعتر، فبعث سلمان بمطهرته فرهنها، ثم جاء بصعتر، فلما أكلناه، قال صاحبي: الحمد لله الذي متعنا بما رزقنا، فقال سلمان رضي الله عنه: لو قنعت بما رزقك الله لم تكن مطهرتي مرهونة.
والحديث أورده الهيثمي في "مجمع الزوائد" 8/ 179، رقم الحديث (13628) ، ط: مكتبة القدسي، وقال: رواه الطبراني، ورجاله رجال الصحيح، غير محمد بن منصور الطوسي، وهو ثقة.

الكامل في ضعفاء الرجال: (239/4، ط: دار الکتب العلمیة)
حدثنا محمد بن جعفر بن حفص الشطوي، حدثنا إبراهيم بن سعيد، حدثنا الحسين بن محمد عن سليمان بن قرم، عن الأعمش عن شقيق قال دخلت أنا وصاحب لي على سليمان فقال لولا، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا عن ‌التكلف لتكلفنا لكم.

المستدرك على الصحيحين: (رقم الحدیث: 7146، 136/4، ط: دار الکتب العلمیة)
أخبرنا علي بن عبد الله العطار، ببغداد، ثنا العباس بن محمد الدوري، ثنا الحسين بن محمد المروذي، ثنا سليمان بن قرم، عن الأعمش، عن شقيق، قال: دخلت أنا وصاحب لي على سلمان، رضي الله عنه فقرب إلينا خبزا وملحا فقال: لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا عن التكلف لتكلفت لكم فقال احبي: ‌لو ‌كان ‌في ‌ملحنا ‌سعتر فبعث بمطهرته إلى البقال فرهنها فجاء بسعتر فألقاه فيه فلما أكلنا قال صاحبي: الحمد لله الذي قنعنا بما رزقنا، فقال سلمان: لو قنعت بما رزقت لم تكن مطهرتي مرهونة عند البقال .
وقال : هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه وله شاهد بمثل هذا الإسناد.ووافقه الذهبي في "التلخيص".

تاريخ جرجان: (ص: 162، ط: عالم الکتب)
حدثنا الإمام أبو بكر الإسماعيلي حدثنا أبو يعقوب إسحاق بن إسماعيل الرازي الحافظ بجرجان حدثنا محمد بن منصور الطوسي ببغداد حدثنا حسين بن محمد حدثنا سليمان بن الأرقم عن الأعمش عن شقيق قال ذهبت أنا وصاحبي إلى سلمان فقال لولارسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا عن التكلف لتكلفت لكم ثم أتانا بخبز وملح فقال صاحبي لو كان في ملحنا سعترفبعث سلمان بمطهرته رهنا فجاء بسعترفلما فرغنا قال صاحبي: الحمد لله الذي قنعنا بما رزقنا فقال سلمان: لو قنعت بما رزقت لم تكن مطهرتي مرهونة.

الآداب للبيهقي: (رقم الحدیث: 73، ص: 30، ط: مؤسسة الکتب الثقافیة)
أنبأني أبو عبد الله الحافظ إجازة، أنبأنا علي بن عبد الله الحكيمي العطار، ببغداد، حدثنا العباس بن محمد الدوري، حدثنا الحسين بن محمد المروذي، وأخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي، أنبأنا عبد الله بن محمد بن زياد، حدثنا محمد بن إسحاق بن خزيمة، حدثنا إبراهيم بن سعيد، حدثنا حسين بن محمد، حدثنا سليمان بن قرم، عن الأعمش، عن شقيق قال: دخلت أنا وصاحبي على سلمان فقرب إلينا خبزا وملحا وقال: لولا أن النبي صلى الله عليه وسلم نهانا عن ‌التكلف تكلفنا لكم. فقال صاحبي: لو كان ملحنا فيه زعتر فبعث بمطهرته إلى البقال فرهنها وجاء بزعتر فألقاه فيه، فلما أكلنا قال صاحبي: الحمد لله الذي قنعنا بما رزقنا، فقال سلمان: لو قنعت بما رزقت لم تكن مطهرتي مرهونة.

شعب الإيمان: (رقم الحدیث: 9153، 127/12، ط: مكتبة الرشد)
أنبأني أبو عبد الله الحافظ إجازة، أخبرنا علي بن عبد الله الحكيمي العطار ببغداد، حدثنا العباس بن محمد الدوري، حدثنا الحسين بن محمد المروروذي- ح وأخبرنا أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين السلمي، أخبرنا عبد الله بن محمد بن علي ابن زياد، حدثنا محمد بن إسحاق بن خزيمة، حدثنا إبراهيم بن سعيد، حدثنا حسين ابن محمد، حدثنا سليمان بن قرم، عن الأعمش، عن شقيق قال: دخلت أنا وصاحب على سلمان فقرب إلينا خبزًا وملحًا فقال: لولا أن النبي صلى الله عليه وسلم نهانا عن التكلف تكلفنا لكم، فقال صاحبي: لو كان ملحنا فيه صعتر فبعث بمطهرته إلى البقال فرهنها، وجاء بصعتر، فألقاه فيه، فلما أكلنا، قال صاحبي: الحمد لله الذي قنعنا بما رزقنا، فقال سلمان: لو قنعت بما رزقت لم تكن مطهرتي مرهونة.

الترغيب والترهيب لإسماعيل الأصبهاني: (رقم الحديث: 2031،‌ 39/3، ط: دار الحدیث)
أنبأ أبو الحسن: علي بن محمد الخطيب الأنباري ببغداد، ثنا أبو عمر بن مهدي، ثنا محمد بن مخلد العطار، ثنا حاتم بن الليث، ثنا حسين بن محمد، ثنا سليمان بن قرم: ذهبت أنا وصاحب لي إلى سلمان –رضي الله عنه فقال: لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن التكلف لتكلفت لكم، فجاءنا بخبز وملح، فقال صاحبي: لو كان في ملحنا سعتر، فبعث سلمان –رضي الله عنه مطهرته فرهنها فجاء بسعتر، فلما أكلنا قال صاحبي: الحمد الله الذي قنعنا بما رزقنا، فقال له سلمان –رضي الله عنه: لو قنعت لم تكن مطهرتي مرهونة.

الزهد و الرقائق لابن المبارك: (رقم الحدیث: 1404، 1408، ص: 493، ط: مجلس إحیاء المعارف-الھند)
أخبركم أبو عمر بن حيويه قال: حدثنا يحيى، حدثنا الحسين، أخبرنا ابن المبارك، أخبرنا قيس بن الربيع، أنبأنا عثمان بن شابور، عن رجل، عن سلمان أنه دخل عليه رجل فدعا بما حضر، خبز وملح، ثم قال: " لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا - أو قال: لولا أنا نهينا - أن يتكلف بعضنا لبعض لتكلفنا لك "، قال ابن صاعد: هكذا قال حسين: عن رجل، وقد حدثناه عبيد الله بن جرير بن جبلة، حدثنا معاذ بن أسد، حدثنا ابن المبارك، أخبرنا قيس، عن عثمان بن شابور، عن أبي وائل، عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه. قال ابن صاعد: قد رواه قوم عن قيس بشك وبغير شك، فمن شك في إسناده:
أخبركم أبو عمر بن حيويه قال: حدثنا يحيى، حدثنا يوسف بن موسى القطان، حدثنا هشام بن عبد الملك أبو الوليد، حدثنا قيس بن الربيع، أخبرنا عثمان بن شابور، إن شاء الله، عن شقيق، أو غيره، عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.
أخبركم أبو عمر بن حيويه قال: حدثنا يحيى، حدثنا إسحاق بن الجراح، حدثنا موسى بن داود، حدثنا قيس، عن عثمان بن شابور، عن أبي وائل، أو غيره، عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.
أخبركم أبو عمر بن حيويه قال: حدثنا يحيى، حدثنا عبيد الله بن جرير، حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا قيس، عن عثمان بن شابور، عن شقيق، أو مثله من أصحاب عبد الله، عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه. قال ابن صاعد: وهكذا رواه خلاد بن يحيى، حدثنا قيس، عن عثمان بن شابور، عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه. ومن لم يشك فيه.
أخبركم أبو عمر بن حيويه، حدثنا يحيى، حدثنا زيد بن عبد القدوس بن محمد بن شعيب بن الحبحاب قال: حدثنا سلم بن قتيبة، حدثنا قيس بن الربيع، عن عثمان، عن شقيق بن سلمة قال: دخلت على سلمان فذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.

مسند أحمد: (رقم الحدیث: 23733، 136/39، ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا عفان، حدثنا قيس بن الربيع، حدثنا عثمان بن سابور رجل من بني أسد، عن شقيق أو نحوه - ‌شك ‌قيس -: أن سلمان دخل عليه رجل فدعا له بما كان عنده، فقال: لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أو لولا أنا نهينا أن يتكلف أحدنا لصاحبه لتكلفنا لك.

التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة -السفر الثالث: (190/3، ط: الفاروق الحديثة)
حدثنا يحيى بن عبد الحميد، قال: حدثنا ‌قيس ‌بن ‌الربيع، قال: حدثنا ‌عثمان ‌بن ‌شابور، قال: حدثنا شقيق، أو غيره، قال: دخلت على سلمان فدعا بماء كان في البيت، ثم قال: لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أن نتكلف لتكلفت لكم.

مسند البزار: (رقم الحدیث: 2515، 482/6، ط: مکتبة العلوم و الحکم)
وأخبرنا زيد بن أخزم، قال: أخبرنا أبو قتيبة، قال: أخبرنا قيس، عن عثمان بن شابور، عن أبي وائل، قال: أتيت سلمان فقرب إلي خبزا وملحا، وقال: "لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن نتكلف للضيف ما ليس عندنا لتكلفت لك".

الطبري كما في شرح صحيح البخاريلابن بطال: (312/9، ط: مكتبة الرشد)
ذكر الطبرى قال: حدثنا محمد بن خالد، عن خراش، حدثنا سلم بن قتيبة، عن ‌قيس ‌بن ‌الربيع، عن ‌عثمان ‌بن ‌شابور عن شقيق بن سلمه قال: (دخلت على سلمان فقرب إلى خبز شعير وملحًا، وقال: لولا أن رسول الله عليه السلام نهى أن تكلف أحدنا ماليس عنه تكلفت لك.

أمالي المحاملي رواية ابن يحيى البيع: (رقم الحديث: 289، ص: 284، ط: دار ابن القيم)
حدثنا الحسين ثنا يزيد بن عمرو بن يزيد بن البراء، ثنا خلاد بن يحيى، ثنا قيس بن الربيع، ثنا ‌عثمان ‌بن ‌شابور، عن شقيق ، عن سلمان الفارسي: أن رجلا دخل عليه فقال سلمان:لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أن نتكلف لتكلفنا لك.

المعجم الكبير للطبراني: (رقم الحدیث: 6083، 235/6، ط: مکتبة ابن تیمیة)
حدثنا بشر بن موسى، ثنا خلاد بن يحيى، ح وحدثنا أبو خليفة الفضل بن الحباب، ومحمد بن محمد التمار البصري، قالا: ثنا أبو الوليد الطيالسي، قالا: ثنا قيس بن الربيع، عن عثمان بن شابور، عن شقيق بن سلمة قال: دخلنا على سلمان فقرب إلينا ما كان في البيت، وقال: "لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا، أو لولا نهينا، عن أن يتكلف الرجل لأخيه لتكلفت لكم".

المعجم الأوسط للطبراني: (رقم الحديث: 5935، 104/6، ط: دار الحرمين)
حدثنا ‌محمد ‌بن ‌محمد ‌التمار قال: نا أبو الوليد الطيالسي قال: ثنا قيس بن الربيع، عن عثمان بن شابور، عن شقيق بن سلمة قال: دخلنا على ‌سلمان، فدعا بما كان في البيت، وقال: لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: نهانا عن التكلف للضيف لتكلفت لكم. لم يرو هذا الحديث عن عثمان بن شابور إلا قيس بن الربيع.

تاريخ دمشق لابن عساكر: (126/13، ط: دار الفكر)
أخبرنا أبو الحسن بن المسلم الفرضي نا عبد العزيز التميمي أنا أبو الحسين عبد الرحمن بن إسحاق بن عبد العزيز اللهبي أنا أحمد بن عبد الوهاب بن محمد اللهبي نا أبو العباس محمد بن جعفر بن محمد بن هشام بن ملاس النميري نا أبو علي الحسن بن عبد الله بن منصور البالسي نا الهيثم يعني ابن جميل نا قيس بن الربيع عن داود بن شابور عن أبي وائل فيما يحسب قيس عن سلمان أنه أضافه قوم فقال لولا أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا تكلفوا للضيف لتكلفنا لكم .كذا قال داود بن شابور وإنما هو عثمان .
وقد أخبرناه على الصواب أعلى من هذا من غير شك في إسناده أبو سهل محمد بن إبراهيم أنا أبو الفضل عبد الرحمن بن أحمد بن الحسن أنا أبو القاسم جعفر بن عبد الله بن يعقوب أنا أبو بكر محمد بن هارون الروياني نا أبو بكر بن عبد القدوس نا سالم بن قتيبة نا قيس بن الربيع عن عثمان بن شابور عن شقيق بن سلمة قال دخلت على سلمان الفارسي فأخرج إلي خبزا وملحا فقال لي لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أن يتكلف أحد لأحد لتكلفت لك.

تقريب التهذيب: (رقم الحدیث: 5573، ص: 457، ط: دار الرشيد)
‌"قيس ‌ابن ‌الربيع الأسدي أبو محمد الكوفي صدوق تغير لما كبر وأدخل عليه ابنه ما ليس من حديثه فحدث به من السابعة مات سنة بضع وستين د ت ق".

المؤتلف والمختلف للدارقطني: (1314/3، ط: دار الغرب الإسلامي)
"وأما شابور ، بالشين المعجمة ، فهو ‌عثمان ‌بن ‌شابور ، يروي عن أبي وائل ، وغيره".

الإكمال لابن ماكولا: (249/4، ط: دار الكتب العلمية)
"وعثمان بن شابور، يروى عن أبى وائل، روى عنه قيس بن الربيع".

الأنساب للسمعاني: (4/8، ط: مجلس دائرة المعارف العثمانية-الهند)
"وفي الأسماء ‌عثمان ‌بن ‌شابور، يروى عن أبى وائل شقيق بن سلمة وأبو سليمان داود بن شابور المكيّ، سمع مجاهدا وعطاء، روى عنه ابن عيينة وداود بن عبد الرحمن".

التاريخ الكبير للبخاري: (386/2، رقم الحدیث: 2867، ط: دائرۃ المعارف العثمانیة)
حسين بن ‌الرماس، العبدي.سمع عبد الرحمن بن مسعود، سمع سلمان؛ أمرنا النبي صلى الله عليه وسلم أن لا نتكلف للضيف ما ليس عندنا، وأن نقدم ما حضر. قاله محمد، سمع حسين بن محمد، سمع حسين بن رماس.

مكارم الأخلاق للخرائطي: (رقم الحدیث: 329، ص: 116، ط: دار الآفاق العربیة)
حدثنا عبد الله بن أبي سعد، حدثنا الحسين بن محمد، حدثنا الحسن بن ‌الرماس الفيدي، قال: سمعت عبد الرحمن بن مسعود، يقول: سمعت سلمان، يقول: "أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا نتكلف للضيف ما ليس عندنا، وأن نقدم إليه ما كان حاضرا".

المعجم الكبير للطبراني: (271/6، رقم الحدیث: 6187، ط: مکتبة ابن تیمیة)
حدثنا عبيد العجلي، ثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري، ثنا حسين بن محمد، ثنا الحسين بن الرماس، عن عبد الرحمن بن مسعود، عن سلمان قال: "نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أن ‌نتكلف ‌للضيف ‌ما ‌ليس ‌عندنا".

المستدرك على الصحيحين: (رقم الحدیث: 7147، 137/4، ط: دار الکتب العلمیة)
أخبرنا علي بن عبد الله، ثنا العباس بن محمد، ثنا الحسين بن محمد، ثنا الحسن بن ‌الرماس، ثنا عبد الرحمن بن مسعود العبدي، قال: سمعت سلمان الفارسي، رضي الله عنه يقول: «نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نتكلف للضيف.[التعليق - من تلخيص الذهبي]7147 - سنده لين

تاريخ أصبهان: (82/1، ط: دار الکتب العلمیة)
حدثنا أبو بكر بن خلاد، ثنا محمد بن الفرج الأزرق، ثنا يونس بن محمد، ثنا حسين بن الرماس، سمعت عبد الرحمن بن مسعود، وسليمان بن رباح، وزكرياء بن إسحاق، يحدثون، عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ‌لا ‌يتكلفن ‌أحد ‌لضيفه ‌ما ‌لا ‌يقدر ‌عليه.

شعب الإيمان: (رقم الحدیث: 9154، 9155، 128/12، ط: مکتبة الرشد)
أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبيد، حدثنا محمد بن الفرج الأزرق، حدثنا يونس بن محمد، حدثنا حسين، سمعت عبد الرحمن بن مسعود وسليمان بن رباح وزكريا يحدثون عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "لا يتكلفن أحد للضّيف ما لا يقدرعليه"
أنبأني أبو عبد الله، أخبرنا علي بن عبد الله، حدثنا الدوري، حدثنا حسين بن محمد، حدثنا الحسين بن ‌الرماس، حدثنا عبد الرحمن بن مسعود العبدي، سمعت سلمان الفارسي يقول: نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نتكلف للضيف

تاريخ بغداد: (578/8، ط: دار الغرب الإسلامی)
‌‌ الحسين بن الرماس العبدي.كان بالمدائن، وحدث عن عبد الرحمن بن مسعود وغيره من أصحاب عمر بن الخطاب. روى عنه الحسين بن محمد المروذي، ويونس بن محمد المؤدب، والوليد بن صالح النخاس.
أخبرنا علي بن محمد بن عبد الله المعدل قال: أخبرنا عثمان بن أحمد الدقاق قال: حدثنا عبد الله بن أبي سعد الأنصاري الوراق قال: حدثنا الحسين بن محمد. وأخبرنا الحسن بن أبي بكر قال: أخبرنا أحمد بن كامل القاضي قال: حدثنا جعفر الصائغ قال: حدثنا حسين بن محمد قال: حدثنا حسين بن الرماس العبدي قال: سمعت عبد الرحمن بن مسعود يقول: سمعت سلمان يقول: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا نتكلف للضيف ما ليس عندنا، وأن نقدم - زاد ابن أبي سعد: إليه، ثم اتفقا - ما كان حاضرا

تاريخ بغداد: (463/11، ط: دار الغرب الإسلامی)
عبد الرحمن بن مسعود العبدي.أحد أصحاب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب، نزل المدائن، وحدث بها عن علي بن أبي طالب، وعن سلمان الفارسي. رَوَى عنه الحسين بن الرماس العبدي، والهذيل بن بلال الفزاري. وقد ذكرنا حديث كونه بالمدائن في باب من يسمى بشرا من هذا الكتاب.
أخبرنا الحسن بن أبي بكر، قال: أخبرنا أحمد بن كامل القاضي، قال: حدثنا محمد بن الفرج، قال: حدثنا يونس بن محمد المؤدب، قال: حدثنا حسين بن الرماس، قال: سمعت عبد الرحمن بن مسعود وسليم بن رباح وزكريا بن إسحاق؛ يحدثون عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يتكلفن أحد لضيفه ما لا يقدر عليه. كذا قال: سليم بن رباح وزكريا بن إسحاق عن سلمان.

زهر الفردوس: (رقم الحدیث: 2923، 447/7، ط: جمعية دار البر)
قال ابن لال حدثنا محمد بن الحسن الزعفراني حدثنا محمد بن الفَرَج الأزرق حدثنا يونس بن محمد حدثنا ‌حُسَين ‌بن ‌الرِّمَاس سمعت عبد الرحمن بن مسعود عن زكريا بن إسحاق عن سلمان رفعه: "لا يتكَلَّفن أحدكم ما لا يقدر عليه".
والحديث أورده العراقي في "تخريج أحاديث الإحياء ط:(ص444، رقم الحديث (2)، وقال: "لا تتكلفوا للضيف فتبغضوه فإنه من أبغض الضيف فقد أبغض الله ومن أبغض الله أبغضه الله".أخرجه أبو بكر بن لال في مكارم الأخلاق من حديث سلمان «‌لا ‌يتكلفن ‌أحد ‌لضيفه ‌ما ‌لا ‌يقدر ‌عليه» وفيه محمد بن الفرج الأزرق متكلم فيه

تاريخ بغداد: (579/8، ط: دار الغرب الاسلامی)
حدثت عن أبي الحسن بن الفرات قال: أخبرني الحسن بن يوسف الصيرفي قال: أخبرنا أبو بكر الخلال قال: أخبرني محمد بن علي قال: حدثنا مهنا قال: سألت أحمد عن الحسين بن الرماح فقال: إنما هو الحسين بن الرماس. قلت: من أين هو؟ قال: من أهل المدائن. قلت: كيف هو؟ قال: ما أرى به بأسا.

تقريب التهذيب: (رقم الحدیث: 8028، ص: 630، ط: دار الرشید)
أبو الجويرية العبدي آخر اسمه ‌عبد ‌الرحمن ‌ابن ‌مسعود مقبول من السادسة تمييز.

كتاب الأربعين على مذهب المتحققين لأبي نعيم الأصبهاني: (ومنها رفضهم للتصنع والتكلف صيانة للتكرم والتعفف، رقم الحديث: 35، ص: 70، ط: دار ابن حزم)
حدثنا محمد بن المظفر وأبو أحمد محمد بن محمد الحافظ قالا حدثنا مساعد بن أشرس حدثنا سعيد بن عمرو حدثنا بقية بن الوليد حدثنا إسماعيل البصري يعني ابن يحيى عن مسعر بن كدام عن عمرو بن مرة عن أبي البختري الطائي عن سلمان قال أتاه نفر من أصحابه فقرب إليهم خبزا وسمكا مالحا ثم قال : كلو، نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن التكلف، لولا ذلك لتكلفنا لكم.

العلل الكبير للترمذي: (ص: 386، ط: عالم الكتب)
"سألت محمدا قلت له: ‌أبو ‌البختري ‌الطائي أدرك ‌سلمان؟ قال: لا ، لم يدرك أبو البختري عليا ، وسلمان مات قبل علي".

شاهده من حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه:
صحيح البخاري: (كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب ما يكره من كثرة السؤال، رقم الحديث: 7293، 95/9، ط: دار طوق النجاة)

حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن أنس قال: كنا عند عمر فقال: ‌نهينا ‌عن ‌التكلف.

شاهده من حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما:
مسند أبي حنيفة للحارثي: (317/1، رقم الحديث: 400، ط: المكتبة الإمدادية)

أخبرنا أحمد بن محمد بن سعيد أنبأ المنذر بن محمد حدثني أبي ثنا سليمان بن أبي كريمة حدثني أبو حنيفة ومسعر بن كدام عن محارب بن دثار عن جابر أنه دخل عليه يوما فقرب إليه خبزا وخلا ثم قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا عن التكلف ولولا ذلك لتكلفت لكم وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول نعم الإدام الخل.

مسند أحمد: (رقم الحديث: 14985، 236/23، ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا أسباط بن محمد ثنا عبيد الله بن الوليد الوصافي عن عبد الله بن عبيد بن عمير قال دخل على جابر نفر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فقدم إليهم خبزا وخلا فقال كلوا فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول نعم الإدام الخل إنه هلاك بالرجل أن يدخل عليه النفر من إخوانه فيحتقر ما في بيته أن يقدمه إليهم وهلاك بالقوم أن يحتقروا ما قدم إليهم.
وأورده المنذري في "الترغيب والترهيب" 3/253، وعزاه إلى أحمد، والطبراني، وأبي يعلى، وقال: وبعض أسانيدهم حسنٌ، و"نِعْمَ الإِدَامُ الْخَلُّ" في الصحيح، ولعل قوله: إِنَّهُ هَلَاكٌ بِالرَّجُلِ إلى آخره من كلام جابر مُدرجٌ غيرُ مرفوعٍ، والله أعلم.

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 434 Mar 08, 2024
"hamain hamein mehman ke liye ese cheez ke takalluf se mana kia gaya hai jo hamare bus mein na ho" is hadis ki tehqiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.