سوال:
کوئی شخص اپنی ملازمہ ماسی کو مستحق سمجھ کر زکوۃ دیتا رہا، بعد میں خارجی ذرائع سے معلوم ہوا کہ یہ شیعہ ہے، ماسی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں سنی ہوں، اب سوال یہ ہے کہ یہ جو گزشتہ زکوۃ دی وہ ادا ہو گئیں اور آئندہ بھی اسے زکوۃ دینا چاہے تو دے سکتے ہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ عورت واضح طور پر سنی العقیدہ ہونے کا اقرار کرتی ہے، اور شیعوں کے کفریہ عقائد سے علی الاعلان براءت کا اظہار کرتی ہے تو اس کو گزشتہ دی گئی زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے، اور آئندہ کے لیے مستحق زکوٰۃ ہونے کی صورت میں بھی اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، تاہم زکوٰۃ چونکہ ایک اہم عبادت ہے، اور عبادات میں احتیاط کے پہلو کو ملحوظ رکھنا چاہیے، لہذا احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسی مشکوک العقیدہ عورت کے ساتھ زکوٰۃ کے بجائے دیگر نفلی صدقات کی مد میں تعاون کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 1395، 104/2، ط: دار طوق النجاة)
عن ابن عباس رضي الله عنهما: «أن النبي صلى الله عليه وسلم: بعث معاذا رضي الله عنه إلى اليمن، فقال: ادعهم إلى: شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، فإن هم أطاعوا لذلك، فأعلمهم أن الله قد افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لذلك، فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة في أموالهم، تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم.»
الموسوعة الفقهية الكويتية: (200/32، ط: دار السلاسل)
يشترط في الفقير الذي تعطى له الزكاة الشروط الآتية:
أ - الإسلام: فلا يجوز صرف الزكاة إلى كافر باتفاق الفقهاء، لحديث معاذ رضي الله عنه: خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم أمر عليه الصلاة والسلام بوضع الزكاة في فقراء من يؤخذ منهم، وهم المسلمون، فلا يجوز في غيرهم.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی