سوال:
مفتی صاحب! ہمارے والد صاحب کا رضائے الٰہی سے 30 نومبر کو انتقال ہو گیا ہے۔ اُن کی دو بیویاں ہیں، ایک بیوی 21 اپریل 2001 یعنی تقریباً 23 سال سے لاپتہ ہیں، ان کی تاریخِ پیدائش 7 اگست 1963 ہے، آج اُن کی عمر اکسٹھ (61) برس بنتی ہے، اُن کا دماغی توازن کبھی کبھار ٹھیک نہیں رہتا تھا۔ پہلی بیوی سے ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، جبکہ دوسری بیوی اپنے گھر میں رہتی ہیں اور ان سے ہمارے والد کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ ہمارے والد نے اپنی جائیداد میں کچھ رقم اور دو گھر چھوڑ کر گئے ہیں، جن کا کرایہ ہر ماہ وصول ہوتا ہے۔ آپ شرعی لحاظ سے جائیداد اور کرائے کی تقسیم کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ جو شخص اپنے اہل وعیال سے لاپتہ ہوجائے اور اس کے زندہ ہونے یا نہ ہونے کی کوئی خبر نہ ہو تو ایسے لاپتہ شخص کی عمر جب ساٹھ سال ہوجائے اور متعلقہ عدالت اس کی موت کا حکم جاری کردے تو اس کو اس وقت سے میت تصور کیا جاتا ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں لاپتہ بیوی مرحوم شوہر کی وفات سے پہلے ہی اکسٹھ سال کی ہوگئی تھیں، گویا کہ شوہر سے پہلے ہی حکماً ان کا انتقال ہوگیا ہے اور جس وارث کا اپنے مورث کی زندگی میں ہی انتقال ہوجائے، اس کو اپنے مورث کی میراث میں سے کچھ حصہ نہیں ملتا ہے، لہذا سوال میں مذکور صورت میں لاپتہ بیوی کو اپنے شوہر کی میراث میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، مرحوم شوہر کی میراث دوسری بیوی، چار بیٹوں اور ایک بیٹی کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم کی جائے گی، البتہ لاپتہ بیوی کا ذاتی مال ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد کو بہتر (72) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے زندہ بیوہ کو نو (9)، چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو چودہ (14) اور بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوہ کو %12.5 فیصد حصہ، ہر ایک بیٹے کو %19.44 فیصد حصہ اور بیٹی کو %9.72 فیصد حصہ ملے گا۔
نوٹ: تمام ورثاء میں کرایہ بھی ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ
الفتاوی الھندیة: (كتاب المفقود، 299/2، 300، ط: دار الفکر)
"هو الذي غاب عن أهله أو بلده أو اسره العدو ولا يدرى أحي هو أو ميت، ولايعلم له مكان ومضى علي ذلك زمان، فهو معدوم بهذا الاعتبار، وحكمه: أنه حي في حق نفسه لا تتزوج امرأته، ولا يقسم ماله، ولا تفسخ اجارته، وهو ميت في حق غيره لايرث ممن مات حال غيبته كذا في خزانة المفتين."
ولا يرث المفقود أحدا مات في حال فقده، ومعنى قولنا " لا يرث المفقود أحدا " أن نصيب المفقود من الميراث لا يصير ملكا للمفقود، أما نصيب المفقود من الإرث فيتوقف، فإن ظهر حيا علم أنه كان مستحقا، وإن لم يظهر حيا حتى بلغ تسعين سنة فما وقف له يرد على ورثة صاحب المال يوم مات صاحب المال، كذا في الكافي. وإذا أوصى له توقف الموصى به إلى أن يحكم بموته فإذا حكم بموته يرد المال الموصى به إلى ورثة الموصي، كذا في التبيين.
الدر المختار مع رد المحتار: (296/4، ط: دار الفکر)
(وميت في حق غيره فلا يرث من غيره) حتى لو مات رجل عن بنتين وابن مفقود وللمفقود بنتان وأبناء والتركة في يد البنتين والكل مقرون بفقد الابن واختصموا للقاضي لا ينبغي له أن يحرك المال عن موضعه: أي لا ينزعه من يد البنتين خزانة المفتين
(قوله: أي لا ينزعه من يد البنتين) بل يقضي لهما بالنصف ميراثا ويوقف النصف في أيديهما على حكم ملك الميت، فإن ظهر المفقود حيا دفع إليه، وإن ظهر ميتا أعطي البنتان سدس كل المال من ذلك النصف والثلث الباقي لأولاد الابن للذكر مثل حظ الأنثيين فتح
فتح القدیر: (كتاب المفقود، 149/6، ط: دار الفكر بيروت)
وكذا ذكر الإمام سراج الدين في فرائضه عن نصير بن يحيى أنها مائة سنة لأن الحياة بعدها نادر، ولا عبرة بالنادر. ووري أنه عاش مائة سنة وتسع سنين أو أكثر ولم يرجع عن قوله.
واختار الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن حامد أنها تسعون سنة لأن الغالب في أعمار أهل زماننا هذا، وهذا لا يصح إلا أن يقال: إن الغالب في الأعمار الطوال في أهل زماننا أن لا تزيد على ذلك، نعم المتأخرون الذين اختاروا ستين بنوه على الغالب من الأعمار.
والحاصل أن الاختلاف ما جاء إلا من اختلاف الرأي في أن الغالب هذا في الطول أو مطلقا، فلذا قال شمس الأئمة: الأليق بطريق الفقه أن لا يقدر بشيء لأن نصب المقادير بالرأي لا يكون وهذا هو قول المصنف الأقيس إلخ، ولكن نقول: إذا لم يبق أحد من أقرانه يحكم بموته اعتبارا لحاله بحال نظائره، وهذا رجوع إلى ظاهر الرواية.
قال المصنف (والأرفق) أي بالناس (أن يقدر بتسعين) وأرفق منه التقدير بستين. وعندي الأحسن سبعون لقوله - صلى الله عليه وسلم - «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا، وقال بعضهم: يفوض إلى رأي القاضي، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي"
رد المحتار: (758/6، ط: دار الفکر)
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه.
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتویٰ: 144407100810
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی