سوال:
مفتی صاحب! مسئلہ یہ ہے کہ ہم آسٹریلیا میں جب کرائے پر مکان لیتے ہیں تو ہر تین ماہ بعد اس کی انسپیکشن کروانی ہوتی ہے، مکان کی مختلف تصاویر لی جاتی ہے، بلکہ ہر پودے اور پتے تک کی تصویر ہوتی ہے، اس میں بتائیں گئے افراد سے مزید افراد نہیں رہ سکتے، اس بارے میں مشورہ یہ کرنا تھا کہ اگر مکان بینک سے لے لی جائے اور ہر ماہ اس کے کرائے کی ادائیگی کی جائے (جو علاقے کی رینٹ کے برابر ہوتی ہے) اور جب مکان کی مکمل ادائیگی ہو جائے تو مکان خود رکھ رکھنے کے بجائے کسی خیراتی ادارے کو دے دی جائے۔ آپ اس بارے میں کیا مشورہ دیں گے۔
تنقیح: محترم! یہ وضاحت فرمائیں کہ آسٹریلیا میں کیا ایسے مالیاتی ادارے نہیں ہیں جو شریعہ کمپلائنٹ طریقے سے گھر خریداری کے لیے تمویل (Finance) کرتے ہوں؟ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:جناب! یہاں اسلامی مالیاتی ادارے ہیں، مگر قابلِ اعتبار نہیں ہیں، یعنی ان کے مکمل اسلامک ہونے پر شک ہے۔
جواب: اگر آسٹریلیا میں مستند علمائے کرام کی زیرِ نگرانی گھر کی تمویل (Financing) کرنے والا کوئی معتمد ادارہ موجود ہو تو ایسے کسی ادارے سے گھر کی تمویل کا معاملہ کرنا جائز ہے، اور خریداری کے بعد اس گھر کو صدقہ کرنا بھی ضروری نہیں۔
مزید تفصیل کے لیے دارالعلوم کراچی کا منسلکہ (Attached) فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (آل عمران، الآية: 130)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ o
بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (346/1، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)
شراء المنزل بواسطة البنوك: إن المعاملة المذكورة غير جائزة لاشتمالها على الربا الحرام شرعا، وينبغي للمسلمين وعددهم غير قليل أن يجتهدوا لإيجاد بدائل هذه المعاملة الموافقة للشرعية الإسلامية، بأن يكون البنك نفسه هو البائع بتقسيط، ويزيد في ثمن البيوت وغيرها من الثمن المعروف، فيشتريها من الباعة، ويبيعها إلى زبائنها بربح مناسب، وينبغي أن تطرح هذه المسألة على لجنة مستقلة تكون لتخطيط نظام البنوك اللاربوي، لتنظر في تفاصيلها. هذا ما تبين لي، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی