resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: اونٹ کا پیشاب پینے والی حدیث کی تحقیق(1586-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا یہ حدیث صحیح ہے: "عرینہ کے کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی تھی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ ﷺ کے چرواہے کے پاس چلے جائیں اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں، چنانچہ وہ لوگ نبی کریم ﷺ کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا، جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ آپ ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا، جب انہیں لایا گیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی ( جیسا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا ) قتادہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے"۔

جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت بخاری شریف میں موجود ہے،ذیل میں اس روایت کا ترجمہ اور مختصر تشریح ذکر کی کی جاتی ہے:
ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (عرینہ کے) کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی تھی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ (نبی کریم ﷺ ) کے چرواہے کے ہاں چلے جائیں یعنی اونٹوں میں اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا جب انہیں لایا گیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی (جیسا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا)۔ قتادہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر: 5686)
تشریح:
۱- یہ آٹھ آدمی تھے، چار قبیلہ عرینہ کے تھے، تین قبیلہ عکل کے اور ایک کسی اور قبیلہ کا ، انھوں نے اسلام قبول کیا، مگر ابھی بشاشت ان کے قلوب میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ مدینہ کی آب و ہوا ان کو راس نہ آئی، جویٰ بیماری لگ گئی، یہ بدہضمی اور یرقان کے علاوہ بیماری ہے۔ معدہ کی خرابی کا نام بدہضمی ہے اور جگر کی خرابی سے یرقان ہوتا ہے، جویٰ بیماری ان کے علاوہ ہے مگر آثار مشترک ہیں۔ بی سا ہی ایم نے ان کو اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا۔ بعض حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا کہ اونٹ کا پیشاب پاک ہے او رمینگنیوں کو پیشاب پر قیاس کیا، پھر دوسرے ماکول اللحم جانوریعنی جن کا گوشت کھایا جاتا ہے کہ بارے میں بھی کہا کہ ان کا پیشاب بھی پاک ہے،لیکن بخاری شریف ہی کی دوسری حدیث نمبر۵۶۸۵ (جس میں صرف دودھ پینے کا ذکر ہے ، پیشاب کا ذکر نہیں ہے)سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے انھیں صرف دودھ پینے کا حکم دیا تھا ،پیشاب انھوں نے خود پیا تھا کیوں کہ عربوں میں یہ تصور تھا کہ جویٰ بیماری میں اونٹ کا دودھ اورپیشاب پینے سے آدمی تندرست ہوجاتا ہے۔ اور اگر مان لیا جائے کہ ان کو پیشاب پینے کا حکم دیا گیا تھا تو وہ علاج کے طور پر تھا ، اور جناب رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی یہ خبردے دی گئی تھی کہ ان کا علاج اسی میں ہے تو جناب رسول اللہ ﷺ کے ضرورت کی وجہ سے اورشفا کے یقینی ہونےکی وجہ سے حکم دیا لہذاس حدیث سے اونٹ کے پیشاب کی طہارت ثابت نہ ہوگی ، جیسے ایک جنگ میں حضرت زبیر اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کو خارش کی وجہ سے ریشم کا کرتا پہنے کی اجازت دی تھی مگر اس سے مردوں کے لیے ریشم کی حلت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ وہ اجازت علاج کی ضرورت سے تھی، یہی معاملہ یہاں بھی ہے۔
۲- ابو قلا بہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ راہزن بھی تھے کہ اونٹوں کو ہانک لے گئے، قاتل بھی تھے، چرواہے کوقتل کیا، مرتد بھی ہو گئے ،اور اللہ ورسول کے ساتھ جنگ بھی کی، اس لئے ان کو یہ سزا دی گئی، یعنی ان کو قصاصا قتل نہیں کیا گیا بلکہ ڈاکوؤں والی سزا دی گئی ، ارشاد پاک ہے: ﴿ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يَحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا، أَنْ يُقتَلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلِهِمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأرْضِ ) ( المائدہ الایة۳۳) جو لوگ اللہ ورسول کے ساتھ جنگ کریں ، اور زمین میں فساد برپا کریں ان کو قتل کیا جائے یا سولی پر چڑھایا جائے ، یا جانب مخالف سے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں۔ یازمین سے دور کر دیئے جائیں یعنی جلاوطن کیے جائیں یا جیل میں بند کیے جائیں۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ قصاص میں مماثلت کے قائل ہیں، انھوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ عرین بین نے نبی سالی بی ایم کے چرواہے کے پہلے ہاتھ پاؤں کاٹے تھے، پھر بول کے کانٹوں سے اس کی آنکھیں پھوڑی تھیں، پھر مرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا اس لئے نبی سال یا ایلیم نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا۔ اور احناف کے نزدیک قصاص تلوار سے ہے خواہ قاتل نے قتل میں کوئی بھی صورت اختیار کی ہو، اس کی صرف گردن ماری جائے گی، زخموں میں مماثلت نہیں ہوگی ، اور عرین بین کو یہ سزا سورہ مائدہ آیت ۳۳ کی رو سے دی گئی تھی۔ وہ اللہ ورسول سے جنگ کرنے والے تھے، ان کو قصاص میں قتل نہیں کیا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (رقم الحديث: 5686، 123/7، ط: دار طوق النجاة)
عن أنس رضي الله عنه: «أن ناسا اجتووا في المدينة، فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم أن يلحقوا براعيه - يعني الإبل - فيشربوا من ألبانها وأبوالها، فلحقوا براعيه، فشربوا من ألبانها وأبوالها، حتى صلحت أبدانهم، فقتلوا الراعي وساقوا الإبل، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فبعث في طلبهم فجيء بهم ، فقطع أيديهم وأرجلهم، وسمر أعينهم» قال قتادة: فحدثني محمد بن سيرين: «أن ذلك كان قبل أن تنزل الحدود»

تحفة القاري: (570/1، ط: مكتبة حجاز ديوبند)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

oont kay pishab wali hadees, Hadith related to camel's urine

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees