عنوان: پگڑی کے فلیٹ کا اونر شپ کروانا (15861-No)

سوال: مفتی صاحب! میرا نام محمد عمران ہے۔ ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے۔ میرے نانا ایوب آدم سوریا کا کھارادر میں ایک فلیٹ ہے، ان کا انتقال 1992 بیان میں ہو گیا تھا اور ان کی اہلیہ کا انتقال 2020 میں ہو گیا تھا، ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، اس فلیٹ میں ان کے منجلے بیٹے 2020 تک رہے، یہ فلیٹ پگڑی سسٹم پر ہے، پانچ سال پہلے منجلے بیٹے نے اونر شپ (ownership) لے کر یہ فلیٹ اپنے نام کروا لیا، جس میں تقریبا 10 لاکھ خرچہ ہوا اور تقریبا ساڑھے تین سال فلیٹ کرائے پر دے دیا، اس فلیٹ کی تقریبا ویلیو 40 سے 45 لاکھ ہے، تقریبا 22 سال پہلے اس کی ویلیو پانچ لاکھ تھی تو چھوٹے بھائی نے کہا کہ فلیٹ بیچ کر میرا حصہ دو، اس وقت کے حساب سے ایک لاکھ روپے حصہ بنتا تھا جو ان کو منجلے بیٹے نے سونا بیچ کر دے دیا اور یہ فلیٹ اب بھی موجود ہے، اب اس فلیٹ کو بیچنا ہے، اس فلیٹ کی رقم ورثہ میں کس طرح تقسیم ہوگی اور جو چھوٹے بیٹے کا حصہ ہے وہ دو منجلے بیٹے لیں گے، جنہوں نے چھوٹے بیٹے کے پیسوں کے لیے زیور بیچ دیے تھے اور جو انہوں نے اونر شپ کروائی تھی وہ ڈالر میں کی تھی۔

جواب: واضح رہے کہ مروَّجہ پگڑی کا معاملہ شرعاً ناجائز ہے اور اس سے ملکیت نہیں آتی، بلکہ ملکیت بدستور اصل مالک کی ہوتی ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کے نانا نے پگڑی پر جو فلیٹ لیا تھا، وہ ان کی ملکیت نہیں تھی، ہاں نانا نے شروع میں جو رقم جمع کرائی تھی، اس کی حد تک ان کی ملکیت ثابت ہوگی، اگرچہ ان کے ذمہ شرعاً یہ لازم تھا کہ پگڑی کے معاملہ کو ختم کرکے مالک کو اس کا فلیٹ واپس کردیں، لیکن چونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں پگڑی کے معاملہ کو ختم نہیں کیا اور نہ ہی فلیٹ اصل مالک سے خریدا، اس لیے یہ فلیٹ پورا مکمل طور پر ان کے ترکہ میں شامل نہیں ہے، البتہ ان کی وفات کے بعد جب ان کے منجلے بیٹے نے دس لاکھ روپے دے کر اونر شپ کروالیا تو وہ اپنی اس رقم کی حد تک فلیٹ کا مشترکہ مالک بن گیا، اس لیے اب یہ فلیٹ اس منجلے بیٹے اور نانا کے دیگر ورثاء کے درمیان مشترک ہوگا، چنانچہ فلیٹ کو بیچنے کے بعد جو رقم حاصل ہو، اس میں سے منجلے بیٹے کے دس لاکھ روپے کا جو تناسب ہو، وہ نکال کر بقیہ رقم چھوٹے بیٹے کے علاوہ (چونکہ وہ اس وقت کے اعتبار سے اپنا حصہ لے چکا ہے) مرحوم کے باقی ورثاء میں تقسیم کی جائے گی، جس میں منجلے بیٹے کو بھی اس کا شرعی حصہ ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بحوث في قضايا ققوية معاصرة: (108/1، ط: وزارة الأوقاف و الشئون الإسلامية)

بدل الخلو المتعارف الذي يأخذه المؤجر من مستأجره لا يجوز، ولا ينطبق هذا المبلغ المأخوذ على قاعدة من القواعد الشرعية، وليس ذلك إلا رشوة حراما.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 231 Apr 26, 2024
pagri ke flat ka owner ship karwana

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.