سوال:
مفتی صاحب! اگر سونے کا کوئی زیور بیچ کر دوسرا زیور بنوانا ہو جو قیمت میں کم یا زیادہ ہوتو برابر سرابر کی شرط پوری نہیں ہورہی ہو اور کچھ رقم زائد دینی پڑے تو ایسی صورت میں شرعاً سودا کس طرح کرنا چاہیے؟
جواب: واضح رہے کہ سونے یا چاندی کے زیورات بیچ کر اس رقم سے نئے زیورات کی خریداری کا معاملہ "بیع الصرف" میں داخل نہیں ہے، اس لیے سوال میں ذکر کردہ معاملے پر بیع الصرف کے احکام جاری نہیں ہوں گے، چنانچہ سونے یا چاندی کے زیورات کی کرنسی کے بدلے خریداری میں آپس کی برابری ضروری نہیں ہے، بلکہ ان میں کمی بیشی کرنا بھی جائز ہے، البتہ اگر کرنسی کے عوض سونے یا چاندی کی خریداری کا یہ معاملہ ادھار پر ہو رہا ہو تو اس کی درستگی کے لیے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: ۱) مجلسِ عقد میں ہی دونوں عوضوں (سونا وغیرہ اور کرنسی) میں سے کسی ایک عوض پر قبضہ کرلیا جائے۔ ۲) معاملہ سونے یا چاندی کے اس دن کے بازاری بھاؤ (مارکیٹ ویلیو) سے زیادہ پر نہ کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (224/3، ط: دار الفکر)
وإن اشترى خاتم فضة أو خاتم ذهب فيه فص أو ليس فيه فص بكذا فلسا وليست الفلوس عنده فهو جائز تقابضا قبل التفرق أو لم يتقابضا لأن هذا بيع وليس بصرف كذا في المبسوط.
فقه البیوع: (685/2، ط: مکتبة معارف القرآن)
اما اذا بیعت الفلوس بالدراھم فیکفی قبض احد البدلین فی المجلس لانه بیع بخلاف الجنس، وبه صرح الکاسانیۙ فی بیع الدرھم او الدینار بالفلوس، فقال: "ولو لم یوجد القبض الا من احد من الجانبین دون الآخر"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی