سوال:
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ! مفتی صاحب! امید ہے کہ آپ ایمان اور صحت کی بہترین حالت میں ہوں گے۔
مجھے ایک مسئلہ کا جواب درکار ہے، میں دبئی میں اپنی گاڑیاں اور سامان سپلائی کا کام کرتا ہوں، میں ایک آدمی سے ڈیزل کے پیسے لیکر گاڑیوں میں ڈیزل ڈالوں اور اس کو جتنا ڈیزل لگے اس کا 3 فیصد منافع دوں تو کیا شرعاً ایسا کرنا جائز ہے؟
یاد رہے یہ منافع صرف ڈیزل کی استعمال کے حساب سے ہوگا، اس کا گاڑیوں کے باقی نفع نقصان سے تعلق نہیں ہوگا اور ڈیزل کا استعمال تو یقینی ہوتا ہے، اس لئے اس میں رقم لگانے والے کو صرف نفع ہی ملنا ہے، نقصان کا بالکل بھی اندیشہ نہیں ہے۔ شرعاً اس کی کیا حیثت ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں ڈیزل ڈلوانے کی مد میں پیسے دیکر اضافی رقم کے ساتھ واپس لیے جا رہے ہیں، بظاہر یہ قرض پر نفع لینے کی ایک صورت ہے جو کہ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، اگر اس رقم سے نفع کمانا مقصود ہو تو کاروبار کے نفع و نقصان میں شراکت داری کی بنیاد پر شرعی اصولوں کے مطابق معاملہ کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
اعلاء السنن: (566/14، ط: دار الکتب العلمیة)
عن علي رضي اﷲ عنه مرفوعا کل قرض جر منفعة فهو ربا. وقال الموفق: کل قرض شرط فیه الزیادة فهو حرام بلا خلاف
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی