عنوان: ہندوستان کی کمپنی میں ذبح ہونے والے گوشت کا حکم (15882-No)

سوال: ہمارے ہندوستان میں بھینس کا گوشت کمپنی سے کٹ کے آتا ہے، کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ حلال طریقے سے جانور کو ذبح نہیں کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں ہم لوگ مشکوک رہتے ہیں کہ یہ گوشت ہمارے لیے کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ کسی بھی جانور کا گوشت کھانا صرف اس وقت جائز ہے جب اس کے بارے میں یقین یا ظن غالب یہ ہو کہ یہ گوشت حلال جانور کا ہے، اور جانور کو شریعت اسلامیہ کے اصول کے مطابق ذبح کیا گیا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ کمپنی اپنی مصنوعات میں حلال ہونے کا اہتمام کرتی ہے، اور اپنے اس دعویٰ پر ان کے پاس کوئی شاہد اور گواہ بھی موجود ہے، مثلاً انہوں نے کسی مستند حلال سرٹیفیکیشن ادارے سے حلال کا آڈٹ کرایا ہے اور ادارے نے تمام مراحل کا جائزہ لینے کے بعد کمپنی کو حلال کی سند عطا کی ہے یا مذکورہ کمپنی نے کسی مستند دارالافتاء سے اپنی مصنوعات کے حلال ہونے کا فتویٰ حاصل کیا ہوا ہے تو اس صورت میں اس کمپنی کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کے بعد جب تک کسی باوثوق ذریعے سے کوئی بات اس کے مخالف معلوم نہ ہو جائے، صرف شک اور افواہوں کی بنیاد پر اس گوشت کو حرام قرار نہیں دیا جائیگا۔
لیکن اگر کپمنی اپنی مصنوعات کے حلال ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی یا دعویٰ تو کرتی ہے، لیکن اس دعویٰ پر ان کے پاس کوئی شاہد نہیں ہے تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ کمپنی سے رابطہ کرکے مستند علماء کرام کی ایک ٹیم کو کمپنی بھیجا جائے، علماء کرام کی ٹیم ذبیحہ کے پورے عمل کا تفصیلی جائزہ لیکر اس کمپنی کے گوشت کے بارے میں حلال یا حرام ہونے کا فیصلہ دے دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیة: 173)
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌo

صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2051، ط: دار الکتب العلمیة)
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الْإِثْمِ أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ، مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكْ أَنْ يُوَاقِعَهُ "

شرح النووی: (78/13، ط: دار احیاء التراث العربی)
فِيهِ بَيَانُ قَاعِدَةٍ مُهِمَّةٍ وَهِيَ أَنَّهُ إِذَا حَصَلَ الشَّكُّ فِي الذَّكَاةِ الْمُبِيحَةِ لِلْحَيَوَانِ لَمْ يَحِلَّ لِأَنَّ الْأَصْلَ تَحْرِيمُهُ وَهَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ.

الفتاوی الھندیة: (308/5، ط: دار الفکر)
من ارسل رسولا مجوسیاً او خادماً فاشتری لحماً فقال: اشتریته من یهودی او مسلم او نصرانی وسعه اکله، وان کان غیر ذلك لم لیسعه ان یاکل منه، معناہ اذا کان ذبیحة غیر الکتابی والمسلم ؛ لانه لما قبل قوله فی الحل اولیٰ ان یقبل فی الحرمة، کذا فی الهدایة.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 426 May 02, 2024
hindustan india ki company mein zibah zibha hone wale gosht ka hokom hokom

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Halaal & Haram In Eatables

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.