سوال:
مفتی صاحب! کیا In house Finance لینا جائز ہے؟
تنقیح: محترم آپ کا سوال واضح نہیں ہے، Inhouse Finance سے کیا مراد ہے؟ اس کی مکمل وضاحت کرنے کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا، ان شاء اللہ
جواب تنقیح: ایک شخص کمپنی سے car لیتا ہے، کار کی اوریجنل قیمت 12 لاکھ ہے، جب کہ اگر وہی کار کمپنی سے 2 سال کی ماہانہ اقساط پر لینے سے اس کی قیمت 14 لاکھ ہوجائے گی، اس سب میں بینک شامل نہیں ہے تو کیا اس طرح سے کار خریدنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ایک چیز نقد کی صورت میں کم قیمت پر اور ادھار/قسطوں پر لینے کی صورت میں زیادہ قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے، یہ معاملہ سود کے زمرے میں نہیں آتا، البتہ بیچتے وقت نقد یا ادھار فروخت کرنے، قیمت اور قسطوں کو متعین کرنا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ طے شدہ مدت سے تاخیر کی وجہ سے جرمانہ نہ لیا جائے۔
لہذا ذکر کردہ صورت میں اگر اس طرح معاملہ کیا جارہا ہو تو مذکورہ معاملہ شرعاً جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلة: (المادۃ: 245- 246)
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومۃ في البیع بالتأجیل والتقسیط الخ
المبسوط للسرخسی: (13/8، ط: دار المعرفة)
وإذا عقد العقد علی أنه إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فهو فاسد، وهذا إذا افترقا علی هذا، فإن کان یتراضیان بینهما ولم یتفرقا، حتی قاطَعه علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیه جاز
بحوث فی قضایا فقهیة معاصرة: (12/1، ط: دار العلوم كراتشي)
أما الأئمة الأربعة وجمهور الفقهاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنه بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی