سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! زید نے عمر کو قسطوں پر ایک لاکھ کی قیمت والی چیز ایک لاکھ چالیس ہزار روپے میں فروخت کردی (دس ہزار ہر ماہ کے حساب سے 14 مہینے)14 مہینوں کی اقساط میں سے 8 دے دیں ہیں، یعنی 80 ہزار دے دیے اور 60 ہزار ابھی باقی ہیں۔ اب بقایا رقم یکمشت دینا چاہتا ہے، اس کا طریقہ کار بتا دیں۔ یعنی اب عمر زید کو یکمشت کتنی رقم دے گا؟ کیا زید اب مکمل 60 ہزار کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں جو قیمت شروع میں طے کی گئی تھی، مقررہ وقت سے پہلے بقیہ رقم یکمشت ادا کرنے کی صورت میں بھی وہی رقم پوری کرکے دی جائے گی، جو شروع میں طے ہوئی تھی، مقررہ وقت سے پہلے ادائیگی کی وجہ سے قیمت میں کمی کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلة: (رقم المادۃ: 246)
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط الخ
فقه البیوع: (545/1، مکتبة دار العلوم کراتشي)
ومما يتعامل به بعض التجار في الديون المؤجله انهم يسقطون حصة من الدين بشرط ان يعجل المديون باقيه قبل حلول الاجل مثل ان يكون لزيد على عمر الف فيقول زید "عجل لی تسعمائة وانا اضع عنك مائة" وان هذه المعامله معروفة في الفقه باسم "ضع وتعجل" وهذا التعجیل ان كان مشروطا بالوضع من الدين فان المذاهب الاربعه متفقة على عدم جوازه۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی