سوال:
مفتی صاحب! زکوۃ کی ادائیگی میں قیمت فروخت کا اعتبار ہوتا ہے لیکن بسا اوقات قیمت خرید اور قیمت فروخت کے درمیان بہت زیادہ تفاوت ہوتا ہے، مثلاً ایک چیز ڈھائی 300 سو روپے کی خریدی جاتی ہے اور مارکیٹ میں وہ تین چار ہزار تک بکتی ہے تو کیا اس صورت میں بھی قیمت فروخت کا اعتبار ہوگا؟ اور اسی طرح بعض چیزیں مثلا گاڑیوں کا سامان کباڑ میں انتہائی سستی قیمت پر یا بالکل مفت مل جاتا ہے اور جب وہ کسی کو ضرورت پڑتی ہے تو بہت زیادہ پیسوں پر بکتا ہے، مثلاً کوئی چیز چھ سات سو روپے کی کباڑ میں مل گئی اور جب کسی ضرورت مند کو ضرورت پڑی تو وہ 25 سے 30 ہار تک بخوشی خرید لیتا ہے لیکن یہ موقع کی بات ہوتی ہے کہ کسی کو اس کی ضرورت پڑ جائے تو تب بکتی ہے تو کیا اس صورت میں بھی قیمت فروخت کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے گی؟
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ میں ادائیگی والے دن کی قیمتِ فروخت کا اعتبار ہوتا ہے، اگر قیمتِ خرید اور قیمتِ فروخت میں بہت زیادہ فرق ہو تب بھی قیمتِ فروخت کا اعتبار ہوتا ہے، اور قیمت فروخت سے وہ اوسط قیمت مراد ہے جس پر عام طور پر وہ چیز بازار میں فروخت ہو رہی ہو۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں گاڑیوں کے سامان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے دن اس کی اوسط بازاری قیمت کا حساب ہوگا، نیز اس کے لیے محتاط اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اوسطاً یہ سامان اتنی قیمت پر فروخت ہوجائے گا، اس طریقے سے قیمتِ فروخت کا محتاط اندازہ کرلینا بھی کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (180/1، ط: دار الفكر)
وإن أدى القيمة تعتبر قيمتها يوم الوجوب؛ لأن الواجب أحدهما ولهذا يجبر المصدق على قبوله وعندهما يوم الأداء.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی