سوال:
میرے والد محترم کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، انہوں نے ایک عدد مکان وراثت میں چھوڑا ہے، وفات سے قبل انہوں نے وصیت کی تھی کہ مکان جس قیمت پربھی فروخت ہو، اس کا 1/3 میری قضا شدہ نمازوں کا بطور فدیہ اد اکرنا ہے اور باقی 2 حصے بطریق وراثت تقسیم کرنا ہے،
مکان کی موجودہ مالیت تقریباً سوا 2 کروڑ ہے۔ والد صاحب الحمدللہ! نماز روزہ کے پابند رہے ہیں، جیسا ہم نے اپنے بچپن سے دیکھا (میری عمر 68 سال ہے، والد صاحب ماشاءاللہ 93 برس کی صحتمند زندگی گزار کر دارفانی سے رخصت ہوئے ہیں)
پوچھنا یہ ہے کہ کیا اتنی بڑی رقم بطور فدیہ دینا مناسب ہے؟ مزید وضاحت یہ ہے کہ ہم پانچ بیٹے اوردو بیٹیاں ان کے وارث ہیں، والدہ دوسال قبل انتقال کرچکی ہیں۔
جواب: واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کے ترکہ میں سے تجہیز و تکفین اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد جو مال بچ جائے، اس کے ایک تہائی (1/3) میں میت کی جائز وصیت کے مطابق عمل کرنا ورثاء پر لازم ہے۔
پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ کے والد صاحب نے اپنے متروکہ مال میں ایک تہائی حصہ نماز کے فدیہ کے طور پر ادا کرنے کی وصیت کی ہے، اس لیے آپ لوگوں پر لازم ہے کہ ان کی وصیت کے مطابق عمل کرتے ہوئے ایک تہائی مال بطور فدیہ ادا کریں، چاہے وہ کتنی بڑی رقم ہی کیوں نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2744، ط: دار طوق النجاۃ)
عن عامر بن سعد، عن أبيه رضي الله عنه، قال: مرضت، فعادني النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، ادع الله أن لا يردني على عقبي، قال: "لعل الله يرفعك وينفع بك ناسا"، قلت: أريد أن أوصي، وإنما لي ابنة، قلت: أوصي بالنصف؟ قال: "النصف كثير"، قلت: فالثلث؟ قال: "الثلث، والثلث كثير أو كبير"، قال: فأوصى الناس بالثلث، وجاز ذلك لهم.
الدر المختار: (72/2، ط: سعید)
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر).
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی