سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک زمین خریدی اس نیت سے کہ اُس کے اوپر دکانیں بنا کر رینٹ پر دینگے، پھر بعد میں اِرادہ بدل گیا اور اب اس زمین کو فروخت کرنا ہے. اُس زمین پر زکوٰۃ ہو گی؟ جزاک اللہ
جواب: پوچھی گئی صورت میں چونکہ زمین تجارت کی نیت سے نہیں خریدی گئی ہے، لہذا اس کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایۃ: (کتاب الزکوٰۃ)
"من اشتریٰ جاریۃ للتجارۃ ونواہا للخدمۃ بطلت عنہا الزکاۃ لاتصال النیۃ بالعمل وہو ترک التجارۃ وان نواہا للتجارۃ بعد ذلک لم تکن للتجارۃ حتی یبیعہا فیکون فی ثمنہا زکوٰۃ لان النیۃ لم تتصل بالعمل اذ ہو لم یتجر فلم تعتبر".
مجموعۃ الفتاویٰ: (کتاب الزکوٰۃ، 363/1)
"لو اشتریٰ الرجل داراً او عبداً للتجارۃ ثم آجرہ یخرج من ان یکون للتجارۃ ولو اشتریٰ قدوراً من الصفر یمسکہا ویواجرہا لا یجب فیہا الزکاۃ کما لا یجب فی بیوت الغلۃ کذا فی فتاویٰ قاضی خان۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی