سوال:
اگر کوئی باپ اپنی زندگی میں اپنی بیٹیوں کو حصہ دے دے، اب مرنے کے بعد جو ترکہ ہوگا، اب اس میں بیٹیوں کا کوئی حصہ تو نہیں ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ زندگی میں والد اولاد کو جو کچھ دیتا ہے، وہ ہدیہ ہوتا ہے، میراث نہیں، بلکہ میراث تو مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ورثاء کا حصہ متعین کیا ہوا ہے، جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہے، لہذا جن بیٹیوں کو والد نے اپنی زندگی میں کچھ دیا تھا، اب ان کو والد کے انتقال کے بعد والد کے متروکہ سامان میں سے بھی حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11)
یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ۔۔۔فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًاo
الھندیۃ: (447/6، ط: دار الفکر)
الفرائض جمع فريضة من الفرض وهو في اللغة التقدير والقطع والبيان وفي الشرع ما ثبت بدليل مقطوع به وسمي هذا النوع من الفقه فرائض لأنه سهام مقدرة مقطوعة مبينة ثبتت بدليل مقطوع به فقد اشتمل على المعنى اللغوي والشرعي، كذا في الاختيار شرح المختار والإرث في اللغة البقاء وفي الشرع انتقال مال الغير إلى الغير على سبيل الخلافة، كذا في خزانة المفتين.
رد المحتار: (444/4، ط: دار الفكر)
وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی