عنوان: خون اور اعضاء ھدیہ کرنے کا حکم(1668-No)

سوال: السلام علیکم،
اکثر و بیشتر مختلف مریضوں کو خون کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے، کسی کو بھی خون کا عطیہ دینا یا وصیت کر کے اپنے اعضاء عطیہ کرنا اسلام میں اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: (1) انسان کا خون دوسرے کے بدن میں داخل کر نا (یعنی استعمال کرنا ) دو وجہ سے حرام ہے۔

(۱) خون انسان کا جزو ہونے کی وجہ سے واجب التکریم ہے۔
(۲)انسان کا خون بدن سے نکال لیا جائے تو وہ نجس ہے، لہذا عام حالات میں جب کہ کوئی اضطراری صورت نہ ہو، آیت قرآنی حرمت علیکم المیتۃ والدم کے پیش نظر اس کا استعمال حرام ہوگا، البتہ جب کسی مریض کی ہلاکت کا خطرہ ہو اور خون دینے سے اس کی جان بچنے کا ظن غالب ہو اور خون دینے کے علاوہ کوئی متبادل دوا بھی نہ ہو تو ایسی اضطراری حالت میں بقدر ضرورت مریض کو خون دینا جائز ہے، اور اس صورت میں کوئی مسلمان دوسرے کو (یعنی مریض کو ) اپنا خون مفت دے تو اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ خود کی ہلاکت کا اندیشہ نہ ہو۔
محض منفعت، زینت، قوت و طاقت بڑھانا مقصود ہو تو ایسی صورت میں کسی کا خون استعمال کرنا اور خون دینا ہر گز جائز نہیں۔
(2) واضح رہے کہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ انسانی اعضاء کو عطیہ کیا جا سکتا ہے :
(1 ) جس کو عضو دیا جارہا ہو، اگر اس کو یہ عضو نہیں لگایا جائے تو غالب گمان یہ ہو کہ وہ مرجائے گا۔ جیسے گردہ وغیرہ 
(2 ) جو شخص عضو عطیہ کررہا ہے، اگر اس سے یہ عضو نکالا جائے تو غالب گمان یہ ہو کہ یہ شخص اس عضو کے نکلنے کے بعد زندہ رہے گا۔
(3 ) کوئی اور متبادل دوا یا علاج اس شخص کے لیے نہ ہو۔
(4 ) اس عضو کے عطیہ کرنے کے بدلے میں رقم لینا نہ ہو۔
مذکورہ بالا اصول کی بنیاد پر آنکھ عطیہ کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے، کیونکہ آنکھ کے بغیر انسان کے زندہ رہنے کا احتمال ہے۔
واضح رہے کہ یہ تمام احکامات زندگی میں عطیہ کرنے کے ہیں، مرنے کے بعد اعضاء کے عطیہ کرنے کی وصیت کرنا ناجائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیۃ: (354/5، ط: دار الفکر)
الانتفاع بأجزاء الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي.

موسوعۃ الفقہ الاسلامی: (493/5، ط: بیت الافکار الدولیۃ)
حكم نقل الأعضاء من إنسان لآخر:
١ - إذا احتاج حي من مجاهد وغيره إلى نقل عضو أو جزء من إنسان حي:
١ - إن كان النقل يؤدي إلى ضرر بالغ كقطع يد أو كلية، فهذا محرم.
٢ - إن كان النقل يؤدي إلى الموت كنزع القلب أو الرئة، فهذا قتل للنفس، وهو من أكبر الكبائر بعد الشرك بالله.
٢ - إن كان النقل من ميت لإنسان حي:
فهذا إن كانت مصلحة الحي ضرورية تتوقف حياته عليها كنقل القلب، أو الرئة، أو الكلية، فهذا يجوز عند الضرورة إذا أذن الميت قبل وفاته، ورضي المنقول إليه، وانحصر التداوي به، وقام بذلك طبيب ماهر.
- حكم نقل الدم:
يشرع للمسلم بذل الدم لأخيه المسلم المحتاج إليه بدون عوض، وفي ذلك أجر وثواب؛ لما فيه من نفع المحتاج إليه.
وقد يكون فيه إنقاذ لحياة مسلم من موت محقق كما يحصل في الحروب من نزيف الدماء بسبب الجراح، وعند ولادة النساء ونحو ذلك.
وقد يكون في خروجه من جسمه عاقبة حميدة له.
وبيع الدم وأخذ ثمنه حرام، فإن أعطى المتبرع هدية مجازاة على معروفه وإحسانه فلا بأس بأخذها.

الفقه الاسلامی و ادلتہ: (2609/4، ط: دار الفکر)
يجوز عند الجمهور نقل بعض أعضاء الإنسان لآخر كالقلب والعين والكُلْية إذا تأكد الطبيب المسلم الثقة العدل موت المنقول عنه؛ لأن الحي أفضل من الميت، وتوفير البصر أو الحياة لإنسان نعمة عظمى مطلوبة شرعاً. وإنقاذ الحياة من مرض عضال أو نقص خطير أمر جائز للضرورة، والضرورات تبيح المحظورات، ولكن لا يقبل بيع هذه الأعضاء بحال، كما لا يجوز بيع الدم، وإنما يجوز التبرع بدفع عوض مالي على سبيل الهبة أو المكافأة عند نقل العضو أو التبرع بالدم في حالة التعرض لهلاك أو ضرر بالغ. فإن تحتم دفع العوض ولا يوجد متبرع من الأقارب أو غيرهم، جاز للدافع الدفع للضرورة.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1729 Jun 18, 2019
khoon or aaza hadiya karne ka hukum, Ruling on donating blood and organs

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Medical Treatment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.