سوال:
اگر کسی نے منت مانی ہو کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو میں کسی مزار پر دیگ دوں گی۔ اب جبکہ کام ہو گیا ہے تو انکے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ اس طرح دیگ مزار پر دینا درست ہے یا غلط اور کیا اس کی جگہ کسی غریب کو پیسے دیئے جا سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: نذر ومنت صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جو نذر مانی جارہی ہے، وہ عبادت مقصودہ ہو اور معصیت و گناہ کی نذر نہ ہو، لہذا صورت مسئولہ میں اگر نذر و منت سے مقصود اللہ کے نام پر مزار کے فقراء اور خدام کو کھانا کھلانا ہے تو یہ جائز ہے، لیکن اگر نذر و منت سے مقصود صاحبِ مزار کے نام پر کھلانا ہو تو یہ گناہ اور موجبِ شرک ہے، کیونکہ یہ" مَا اُھِلَ بِہٖ لِغَیْرِ اللہ" یعنی غیراللہ کے نام کی نذر و نیاز میں داخل ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے، اس صورت میں یہ منت منعقد ہی نہیں ہوئی، لہذا اس کا پورا کرنا لازم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اگر مقصود اللہ کے نام پر فقراء کو کھلانا ہے تو یہ نذر صحیح ہےاور اس کو پورا کرنا ضروری ہے، اس صورت میں کسی بھی فقیر کو کھلادیں تو درست ہے، مزار ہی کے فقراء کو کھلانا ضروری نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (439/2، ط: سعید)
مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (قوله تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك.
ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی