سوال:
مفتی صاحب! اگر کسی کے پاس ایک بھینس دو گائے اور ان کے بچے موجود ہیں اور اس شخص کی روزگار یہ ہیں کہ دہاڑی لگاتا ہے اور اس کو اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے، نقدی وغیرہ جمع نہیں ہیں اور یہ مذکورہ مال مویشی دودھ کے لے رکھی ہیں اور ایک سال ایک کا دودھ استعمال کرتا اور دوسرے سال دوسری کا دودھ استعمال کرتا ہے اور بوقت ضرورت یعنی قرض دار ہونے کی وجہ سے یا مرض کی وجہ سے ہسپتال کے خرچے کے لے ایک جانور کبھی کبھار بیچتا ہے تو آیا یہ مذکورہ شخص صاحبِ نصاب شمار ہوگا یا نہیں، کیونکہ اگر گائے اور بھینس کی قیمت کو دیکھا جائے تو وہ تین چار لاکھ سے زیادہ ہوجاتی ہیں؟
نیز اس شخص کے پاس ان مویشیوں کے علاوہ جو ضرورت سے زیادہ سامان ہیں، وہ نصاب سے کم ہیں تو ان مویشیوں کو اس مال کے ساتھ ضم کیا جائے گا یا نہیں؟ اور اسی طرح یہ شخص ان مویشیوں کی دودھ کو بیچتا ہے اور ان پیسوں سے ان مویشیوں پر خرچ کرتا ہے، مثلاً گھاس کھل ونڈہ وغیرہ تو ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہیں؟ اس پر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟ کیا ایک بھینس ضرورت اصلیہ میں داخل ہےیا نہیں؟ اگر داخل ہے تو اس سے زائد کا کیا حکم ہیں اور اسی طرح اس شخص پر قربانی اور صدقہ فطر کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں
تنقیح:
آپ کے سوال میں کچھ ابہام ہے، آپ درج ذیل باتوں کی وضاحت فرمائیں:
1) آپ کی دودھ کی ضرورت کتنے جانوروں سے پوری ہوجاتی ہے؟
2) اگر ایک جانور سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے تو دوسرے دو جانوروں کی ضرورت پورا سال نہیں پڑتی یا ان کا دودھ بھی بقدر ضرورت استعمال ہوتا رہتا ہے؟اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
1) ہمارے لئے دودھ تو ایک جانور كا كافی ہوتا ہیں۔
2) یہ باقی جو ایک یا دو جانور ہوتے ہیں، یہ اس وجہ سے ركھے ہیں كہ جب آئندہ اس ایک جانور كا گابھن ہونے كی وجہ سے دودھ سوكھ جائے تو پھر آئندہ ان جانوروں كے دودھ استعمال كرتے ہیں، كیونكہ ایک جانور ہر سال دودھ نہیں دیتا اور ہر سال ایک جانور دودھ سے سوكھا ہوا بیچ كر دوسرا دودھ والا خریدنا مہنگا ہونے كی وجہ سے مشكل ہوتا ہے، اس وجہ سے زائد ایک یا دو جانوروں كو ركھا جاتا ہے۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ تفصیلات کے مطابق مذکورہ شخص کے پاس سونا، چاندی، ضرورت سے زائد نقدی اور مال تجارت موجود نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی ملکیت میں سائمہ (سال کا اکثر حصہ باہر چرنے والے) جانور ہیں، اس لیے اس پر زکاۃ واجب نہیں ہے۔
جبکہ صدقہ الفطر اور قربانی کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اگر اس شخص کے لئے ہر سال جانور سوکھنے کے بعد دوسرے (دودھ والے) جانور کی خریداری میں زیادہ مشکل پیش نہ آرہی ہو، بلکہ وہاں بآسانی دودھ والا جانور ہر وقت دستیاب ہو اور اس تبدیلی سے کوئی بہت زیادہ مالی نقصان بھی نہ ہوتا ہو۔ یا نیا جانور خریدے بغیر بھی روز مرہ کی ضرورت پوری کرنے کےلئے دودھ مل سکتا ہو، اور اس شخص کے پاس اس کی خریداری کے وسائل بھی ہوں، تو اس صورت میں مذکورہ شخص پر قربانی اور صدقہ الفطر واجب ہے اور اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر اس علاقے میں دودھ دستیاب نہ ہو، یا دستیاب تو ہو لیکن خریداری کے وسائل نہ ہو، اور ہر سال نیا جانور خریدنا ناممکن ہو، تو اس صورت میں اس شخص پر قربانی اور صدقۃ الفطر واجب نہیں ہے، اور وہ زکوٰۃ بھی وصول کرسکتا ہے.
(نوٹ: صدقہ الفطر کے لیے عید الفطر کے دن ان کی مالیت اور قربانی کے لیے عید الاضحی کے تین دنوں کی مالیت کا اعتبار ہوگا، ابھی سے اس کے وجوب یا عدم وجوب کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (200/1، ط: مکتبه رحمانیة)
الزکوة واجبة علی الحر العاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا ملکا تاما و حال علیہ الحول۔
الھدایة: (224/1، ط: مکتبه رحمانیه)
صدقة الفطر واجبة، علی کل الحر المسلم، إذا کان مالکا لمقدار النصاب، فاضلا عن مسکنه، و ثیابه، و اثاثه، و فرسه، و سلاحه، و عبیده، و یخرج ذالك عن نفسه، و عن اولاده الصغار.
الھندیة: (292/5، ط: دار الفکر)
(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی