سوال:
مفتی صاحب! عرض یہ کرنا ہے کہ ایک شخص کی 2002 میں شادی ہوئی اور اس نے اپنی بیوی کو چار تولے سونا دیا، 2015 میں اس کی بیوی انتقال کر گئی، 2002 سے لے کر 2015 تک اس کی بیوی نے ایک دفعہ بھی اس سونے کی زکوۃ نہیں دی، اس کے بعد وہ سونا واپس اس کے میاں کے پاس آگیا اور اس نے وہ سونا بیچ دیا، اب وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی مرحومہ بیوی نے جو 13 سال کی زکوة ادا نہیں کی، وہ میں ادا کر دوں تو کیا یہ صحیح ہے؟ اگر ادا کرسکتے ہیں تو کس قیمت پر کریں گے کیونکہ اب تو سونا بھی ملکیت میں نہیں ہے، وہ تو بیچ دیا ہے۔
جواب: واضح رہے کہ یہ سونا آپ کی ملکیت نہیں تھا، بلکہ آپ کی بیوی کی ملکیت تھا، ان کے انتقال کے بعد ان کے تمام شرعی ورثاء اس میں شریک تھے، لہذا آپ کا ورثاء کی اجازت کے بغیر اس سونے کو بیچ کر تنہا رقم اپنے پاس رکھنا جائز نہیں تھا، اب آپ پر اس سونے کی قیمت کو تمام شرکاء پر ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے، باقی اس سونے کی سابقہ زکوٰۃ کا ادا کرنا آپ پر لازم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السراجي في الميراث: (ص: 5، ط: مكتبة البشرى)
قال علماءنا تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة:أول يبداء بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولا تقتير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياه من ثلث مابقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الأمة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی