سوال:
السلام علیکم! ایک صاحب کے پاس ذاتی مکان نہیں ہے، انہوں نے ایک پلاٹ خریدا ہے اور اس پر گھر بنوانے کا ارادہ ہے، وہ اس گھر کو بیچ کر اپنا گھر خریدیں گے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس پلاٹ پر اور گھر کی تعمیر کے بعد گھر بیچ کر جو پیسے ملیں گے، اس پر زکوة کا کیا حساب ہوگا؟ جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ پلاٹ پر زکوة کے وجوب سے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جو پلاٹ تجارت یعنی فروخت کرنے کی نیت سے خریدا جائے، اُس پر زکوة واجب ہوتی ہے اور جو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا جائے، اُس پر زکوة واجب نہیں ہوتی۔
پوچھی گئی صورت میں چونکہ پلاٹ اس نیت سے خریدا گیا ہے کہ اس پر گھر بنا کر فروخت کیا جائے گا، یہ تجارت کی نیت ہے، اس لیے مذکورہ پلاٹ کی مالیت اگر دوسرے قابل زکاۃ اموال کے ساتھ مل کر ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ رہی ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، یہی حکم پلاٹ فروخت کرنے کے بعد حاصل ہونے والی رقم کا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (179/1، ط: مكتبة رشیدية)
الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت، إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب، كذا في الهدايه۔
الدر المختار: (265/2، ط: دار الفکر)
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول)۔۔۔۔۔۔(أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی