سوال:
ایک بلڈنگ میں چھ فلیٹس ہیں، ان فلیٹوں میں تین موٹریں پانی کی لگائی گئی ہیں، جن میں دو موٹریں باہر سے پانی کھینچنے والی اور ایک موٹر پانی کو اوپر چڑانے والی ہے۔ اب ہوا یوں کہ جب بھی پانی آتا رہا ہے تو ترتیب سے ہر ایک فلیٹ کی بجلی سے بترتیب 1 2 3 4 5 6 موٹر چلائی جاتی رہی ہے، لیکن اب درمیان میں فلیٹ نمبر 3 تقریباً تین چار مہینے سے خالی رہا ہے، اتفاقاً اسی فلیٹ کی باری آئی تو ان فلیٹں والوں نے (چونکہ یہ فلیٹ خالی تھا) موٹریں انہیں کی بجلی پر کنوٹ کرلی اور موٹریں انہی کی بجلی سے چلادی، جب مہینے کے بعد بل آیا تو اس میں بجلی کے کچھ یونٹس استعمال ہو چکے تھے تو اس فلیٹ والوں نے معلومات کی تو پتا چلا کہ درمیان میں انہی کی بجلی سے موٹریں چلائی جاتی رہی ہیں، حالانکہ اس سے پہلے ایک فلیٹ نمبر4 ڈیڑھ دو سال سے خالی رہا اور جب بھی ان کی باری آتی رہی تو فلیٹ والوں نے ان کی بجلی سے موٹریں نہیں چلائی تھیں اور یہ بات بھی ہے کہ اس میں کوئی مہینہ کسی فلیٹ کے ساتھ بندھا ہوا نہیں تھا اور نہ ہی شروع میں ایسی کوئی بات ہوئی تھی کہ جب ان فلیٹوں میں سے کوئی فلیٹ خالی ہوگا تو اس کی بجلی باری آنے کی صورت میں استعمال کریں گے۔ جب ان لوگوں سے بجلی کے استعمال کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو ان فلیٹ والوں نے کہا کہ ہم نے معلومات کی ہے اس طرح استعمال کرنا صحیح ہے۔
اس مسئلہ کی وضاحت قرآن وحدیث کی روشنی میں مطلوب ہے کہ آیا اس طرح مالک کی اجازت کے بغیر اس کی غیر موجودگی میں ان کی بجلی استعمال کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ کسی بھی مشترکہ بلڈنگ میں مینٹیننس (Maintenance) کی مد میں کئی طرح کے مصارف ہوتے ہیں، سمجھنے کے لیے ہم ان مصارف کو تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
1) مشترکہ ملکیت کی چیز خریدنا اور اس کی مرمت کرنا، جیسے پانی کی موٹر خریدنا یا اس کی مرمت کرنا۔
2) کوئی ایسا مصرف جس کا نفع بہر صورت تمام شرکاء کو پہنچتا ہے، چاہے وہ اپنے فلیٹ میں رہائش پذیر ہوں یا نہ ہوں، جیسے چوکیدار کی تنخواہ وغیرہ۔
3) ایسے مصارف جن سے استفادہ صرف وہ لوگ اٹھا سکتے ہیں، جو بلڈنگ میں رہائش پذیر ہیں، جیسے پانی کا ٹینکر ڈلوانا۔
پہلے دونوں مصارف میں تمام شرکاء باہم شریک ہوتے ہیں، اس لیے اِن پر آنے والے خرچے کو تمام شرکاء پر برابر تقسیم کیا جائے گا، البتہ تیسری قسم کے مصارف صرف ان شرکاء پر لازم ہوں گے جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، البتہ اگر تمام شرکاء باہمی رضامندی سے کوئی معاہدہ کرلیں یا پہلے سے کوئی طریقہ کار یعنی عرف لوگوں میں رائج ہو، (جیسا کہ لفٹ کے استعمال میں ہوتا ہے) تو پھر اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔
سوال میں پوچھی گئی اس خاص صورت (ہر فلیٹ کے لیے الگ بجلی کے استعمال ہونے) میں چونکہ باقاعدہ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے، لہذا اس کے اخراجات صرف ان لوگوں سے لینے چاہیں جو اس کا فائدہ اٹھا رہے ہوں، اور جو گھر بند ہوں اور انہیں اس مصرف کا فائدہ نہیں ہو رہا ہو، ان پر خرچ کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 1352، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن عبد اللّٰه بن عمر بن عوف المزني عن أبیه عن جدہ رضي اللّٰه عنه أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: "الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحًا حرّم حلالاً أو أحلّ حرامًا، والمسلمون علی شروطہم إلا شرطا حرّم حلالاً، أو أحلّ حراماً".
مشکوٰۃ المصابیح: (261/1، ط: مکتبة رحمانية)
وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه"
کذا فی فتویٰ دار العلوم دیوبند: رقم الفتوی: 568-594/N=7/1439
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی