سوال:
مفتی صاحب! ایک اہم مسئلہ درپیش ہے۔ زید اور آمنہ کی شادی والدین اور دونوں فریقین کی رضامندی سے ہوئی، شادی کے بعد زید اور اس کے گھر والوں کا رویہ آمنہ کے ساتھ مناسب نہیں تھا، بات بات پر شک کرنا، آمنہ کے گھر والوں سے بدتمیزی سے پیش آنا اور کچھ الزامات بھی لگانا زید اور اس کے گھر والوں کا معمول بن گیا ہے، پھر ایک روز زید اور اس کے والد نے آمنہ کے والد سے بھی بد تمیزی کی تو آمنہ کے والدین نے اسے روک لیا اور زید کے گھر جانے سے منع کردیا، پھر آمنہ سے مزید تفصیلات پوچھیں تو آمنہ نے کہا کہ زید اسے بالکل وقت نہیں دیتا اور سب گھر والے آستانے پر جاتے ہیں اور اسے بھی جانے کا بولتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس لڑکے میں کوئی ایسی بات نہیں کہ وہ ایک مناسب شوہر اور داماد ثابت ہوسکے۔ یاد رہے کہ زید کی یہ دوسری شادی ہے اور پہلی بیوی نے بھی اسے چھوڑ دیا تھا، جبکہ آمنہ کی پہلی شادی ہے اور اس کی عمر 24 سال ہے۔ یہ سب باتوں کے بعد آمنہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک ماہ کے حمل سے ہے، اب والدین پریشان ہیں کہ ایک طرف تو یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ آمنہ کو زید سے علیحدگی لینی چاہیے اور دوسری طرف اتنی کم عمر میں طلاق اور وہ بھی حمل کے ساتھ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں اسقاط حمل کی گنجائش ہے؟ تاکہ اس کی عدت کے بعد کہیں مناسب رشتہ مل سکے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں مطلقہ اور ایک بچے کے ساتھ اچھا رشتہ ملنا ناممکن نظر آتا ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب: واضح رہے کہ شدید عذر کے بغیر حمل کو ساقط کرانا شرعاً جائز نہیں ہے، نیز طلاق شرعاً اسقاطِ حمل کے لیے معتبر عذر نہیں ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں حمل ساقط کرانے کی شرعاً گنجائش نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (176/3، ط: دار الفكر)
«مطلب في حكم إسقاط الحمل: (قوله وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اه قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل اه. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اه كلام النهر ح»
کذا في فتاویٰ دار الافتاء بنوری تاؤن: رقم الفتویٰ: 144507102001
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی