عنوان: نرسری کے پودوں کے کاروبار میں شراکت داری (partnership) کا حکم (17025-No)

سوال: ایک شخص پودوں کا کاروبار کرتا ہے اور نرسری سے پودے خرید کر ان کی کانٹ چھانٹ وغیرہ کرکے آگے فروخت کر کے منافع کماتا ہے، اب اگر کوئی اس کے کاروبار میں پیسہ لگاتا ہے اور جو بھی ماہانہ منافع اس شخص کے لگائے ہوئے سرمائے پر ہوتا ہے، اس کے دو حصے باہمی رضا مندی سے کاروبار کا مالک رکھ لیتا ہے اور ایک حصہ پیسہ لگانے والے کو دے دیتا ہے تو اس صورت میں منافع کی یہ حصہ داری سود کے زمرے میں ائے گی یا نہیں؟

جواب: سوال میں ذکر کی گئی صورت شراکت داری (partnership) کی ہے، جس میں نفع و نقصان کی تقسیم کا شرعی اصول یہ ہے کہ تمام شرکاء کاروبار کے نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوں گے۔ نقصان کی صورت میں ہر شریک اپنے اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا، یعنی جس نے جتنا سرمایہ لگایا ہے، اسی تناسب سے وہ نقصان برداشت کرے گا۔ جہاں تک نفع کی تقسیم کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں شریعت کی طرف سے کوئی مخصوص تناسب لازم نہیں کیا گیا، بلکہ فریقین اپنے سرمایہ٬ ذمہ داریوں اور کاروبار کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے نفع کا کوئی بھی فیصدی تناسب طے کرسکتے ہیں، البتہ جس شریک کا کاروبار میں صرف سرمایہ لگا ہو، اور وہ کاروبار کیلئے کوئی کام نہ کر رہا ہو تو اس (Non working partner) کے لیے اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع طے کرنا جائز نہیں ہے۔
پوچھی گئی صورت میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ پیسہ لگانے والے کا اس کاروبار میں سرمایہ کا تناسب کتنا ہے؟ اگر پیسہ لگانے والا عملی طور پر کاروربار کیلئے کوئی کام نہیں کر رہا تو پھر وہ اپنے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ منافع نہیں لے سکتا، نیز سوال میں نقصان کی تقسیم کا ذکر نہیں کیا گیا، جبکہ کاروبار شروع کرتے وقت نفع نقصان دونوں چیزیں طے کرنا ضروری ہے۔
لہذا مذکورہ معاملے میں اگر نفع و نقصان کے سلسلے میں اوپر ذکر کردہ شرعی اصولوں کا لحاظ رکھا گیا ہو تو ایسی شراکت داری کا معاملہ شرعاً درست ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مصنف عبد الرزاق: (رقم الحديث: 15087)
عبد الرَّزَّاق قال: قال القيس بن الرّبيع، عن أبي الحُصَيْن، عن الشَّعْبِيِّ، عن عليّ في المضاربة: « الْوَضِيعَةُ عَلَى الْمَالِ، وَالرِّبْحُ عَلَى مَا اصْطَلَحُوا عَلَيْهِ» وَأَمَّا الثَّوْرِيُّ فَذَكَرَهُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ عَلِيٍّ فِي الْمُضَارَبَةِ، أَوِ الشِّرْكَيْنِ

رد المحتار: (312/4، ط: دار الفکر)
وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط

الفتاوی الهندية: (كتاب الشركة، فصل فى بيان شرائط انواع الشركة، 56/6، ط:دارالكتب العلمية)
(ومنها): أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 59 Jun 03, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.