عنوان: زکوة اور قربانی کے نصاب میں فرق، نیز دو تولہ سونے پر زکوة اور قربانی کا حکم (18028-No)

سوال: مفتی صاحب! زکوۃ یا قربانی کون سے نصاب(ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی) رکھنے والے پر واجب ہے؟ اگر کسی کے پاس ساڑھے باون تولہ سونا چاندی نہ ہو اور سونا اس کے پاس دو تولے ہو تو کیا اس پر قربانی فرض ہے اور کیا اس کو زکوۃ بھی دینی ہے؟ کیونکہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تو دو لاکھ کی مالیت کے اندر ہی آتی ہے۔ ہمارے پاس چاندی نہیں ہے، لیکن سونے کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے برابر ہے تو کیا ہم کو زکوۃ بھی دینی ہے اور قربانی بھی کرنی ہے؟ براہ کرم اس کا جواب دیں

جواب: واضح رہے کہ زکوة اور قربانی صاحب نصاب پر واجب ہوتی ہے، البتہ دونوں کے نصاب میں کچھ فرق ہے۔
زکوة واجب ہونے کا نصاب:
واضح رہے کہ زکوة کے نصاب کے لئے مال کا نامی (سونا، چاندی، نقد رقم اور مال تجارت) ہونا، اور اس پر سال کا گزرنا شرط ہے، لہذا اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی یا سامانِ تجارت ہو تو ایسے شخص پر سال پورا ہونے پر ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔
اسی طرح اگر کسی کے پاس نہ پورا ساڑھے سات تولہ سونا ہو اور نہ ہی ساڑھے باون تولہ چاندی، اور نہ ان کے برابر نقدی اور مال تجارت ہو، لیکن اس کی ملکیت میں موجود ان سب قسم کے یا ان میں سے بعض قسم کے اموال کو ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کی مالیت کے برابر بنتی ہو تو اس صورت میں بھی مذکورہ شخص صاحب نصاب شمار ہوگا۔
قربانی کا نصاب:
قربانی کے نصاب میں نہ تو مال کا نامی ہونا شرط ہے، اور نہ ہی اس پر سال کا گزرنا شرط ہے، البتہ صاحب نصاب کا مقیم ہونا شرط ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صاحب نصاب عید الاضحی کے دنوں میں مسافر ہوگا تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی، لہذا اگر کسی مقیم شخص کی ملکیت میں بارہ ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے سے پہلے تک ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یا ان دونوں کو ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت بنتی ہو یا پھر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر مال ہو جو اس شخص کی ضرورت سے زائد ہو تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی، نیز سفر اور اقامت میں بھی آخری (بارہ ذی الحجہ کے غروب سے پہلے والی) حالت کا اعتبار ہوگا۔
پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کی ملکیت میں صرف دو تولہ سونا ہے اور اس کے ساتھ چاندی، نقد روپیہ یا مال تجارت نہیں ہے تو چونکہ یہ سونے کا مکمل نصاب نہیں ہے، اس لیے صرف دو تولہ سونے پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی، لیکن اگر دو تولہ سونا کے ساتھ کچھ مقدار چاندی کی موجود ہے یا کچھ نقد رقم ہے، جو ضرورت سے زائد ہے یا پھر مال تجارت ہے، اور ان کی کل مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچ رہی ہے تو اس صورت میں آپ صاحب نصاب ہیں، لہذا سال پورا ہونے پر (اگر آپ صاحب نصاب رہیں) تو آپ پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگی، جبکہ قربانی کے نصاب کا حساب لگاتے ہوئے ضرورت سے زائد سامان کی مالیت کو بھی شامل کیا جائے گا، لہذا اگر عید الاضحی کے دنوں میں آپ کی ملکیت میں موجود ضرورت سے زائد کل اموال و سامان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ رہی ہو تو آپ پر قربانی واجب ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (19/2، ط: دار الفکر)
فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا .... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة؛ و لأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
و أما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر۔

المحیط البرھانی: (86/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله، والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم، أو عشرون ديناراً، أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنھا
وفي «الأجناس» إن جاء يوم الأضحى وله مائتا درهم أو أكثر ولا مال غيره فهلك ذلك لم تجب عليه الأضحية، وكذلك لو نقص عن المائتين، ولو جاء يوم الأضحى ولا مال له ثم استفاد مائتي درهم فعليه الأضحية۔۔۔۔۔۔۔
وفي «الأجناس» : وإن كان عنده حنطة قيمتها مائتا درهم يتجر بها، أو ملح قيمتها مائتا درهم، أو قصار عنده صابوت أو أشنان قيمتها مائتا درهم فعليه الأضحية.

مختصر القدوری: (208/1، ط: دار الکتب العلمیة)
الأضحية واجبة على كل حر مسلم مقيم موسر في يوم الأضحى۔

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 219 Jun 05, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.