عنوان: مسجد کے امام اور اہلِ محلہ کے لیے مسجد کے سولر سسٹم سے کنکشن لینا (18041-No)

سوال: کیا مسجد کے سولر سے امام صاحب ذاتی اور اپنے بچوں کے کپڑے استری کرسکتا ہے اور راڈ بھی استمال کرسکتا ہے یا نہیں؟ اور کیا مسجد کے سولر سسٹم سے محلے والے کنکشن لے کر بجلی کی سہولت لے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ سولر سسٹم کے لیے چندہ دینے والوں نے اگر صراحت کے ساتھ صرف مسجد میں سولر سسٹم لگانے کے لیے رقم دی ہو تو پھر مسجد کے متعلقات (امام کی رہائش وغیرہ) کے لیے اس کی بجلی استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا، لیکن اگر چندہ دینے والوں کی طرف سے متعلقات مسجد (امام کے گھر وغیرہ) میں صراحتاً استعمال کی اجازت دی ہو، یا کم از کم دلالۃً اجازت دی ہو (یعنی اگر انہیں پتہ چل جائے تو وہ اس کو برا نہ مانیں) تو اس صورت میں امامِ مسجد اور اس کے اہلِ خانہ کے لیے مسجد کے سولر کی بجلی سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی اجازت ہوگی، تاہم اس کے استعمال میں اسراف سے بچنے کے لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہوگی۔
البتہ امامِ مسجد کے علاوہ محلے والوں کے لیے مسجد کے سولر سے کنکشن لینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر سولر سسٹم کے لیے چندہ دینے والوں کی طرف سے اہلِ محلہ کے لیے بھی اس کے استعمال کی اجازت دی گئی ہو تو اس صورت میں اہل محلہ کے لیے بقدر ضرورت استعمال کرنے کی گنجائش ‏ہوگی، بشرطیکہ اس سے مسجد کا نقصان نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق: (232/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)
"أي مصالح المسجد، فیدخل المؤذن والناظر؛ لأنا قدمنا أنهم من المصالح، وقدمنا أن الخطیب داخل تحت الإمام لأنہ إمام الجامع، فتحصل أن الشعائر التي تقدم في الصرف مطلقًا بعد العمارۃ الإمام والخطیب والمدرس والوقاد والفراش والمؤذن والناظر وثمن القنادیل والزیت والحصر.

الهندية: (462/2، ط: دار الفكر)
متولي المسجد ليس له أن يحمل سراج المسجد إلى بيته وله أن يحمله من البيت إلى المسجد، كذا في فتاوى قاضي خان.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 537 Jun 07, 2024
masjid k imam of ahle mohalla k liye masjid k solar system se connection lena

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Rights & Etiquette of Mosques

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.