سوال:
میں ایک مسجد کا امام ہوں، مجھے ایک قسم کی نیند کی بیماری لاحق ہوگئی ہے جس سے مجھے اکثر نیند آتی ہے یہاں تک کے دورانِ نماز قیام میں اور اسی طرح تشہد میں بھی نیند آجاتی ہے، اگرچہ نیند مختصر سے ہوتی ہے، پھر میں اٹھ جاتا ہوں اور نماز مکمل کرتا ہوں، یہ نیند کی مقدار اتنی ہوتی ہے کہ پیچھے نمازیوں کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا، یہ بیماری اتنی زیادہ ہے کہ عام حالت میں بھی کبھی کھڑے کھڑے اور کبھی بائیک چلاتے ہوئے بھی ایک لحظہ تک نیند آجاتی ہے اور پھر جھٹکے سے اٹھ جاتا ہوں، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس صورت میں میری نماز اور امامت درست ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی جتنا جلد ہوسکے جواب عنایت فرمائیں تاکہ کہی میری اور مقتدیوں کی نمازیں خراب نہ ہوجائے۔
جواب: واضح رہے کہ اگر نمازی (خواہ امام ہو یا مقتدی) دورانِ نماز قیام، رکوع یا سجدے کی حالت میں سوجائے تو اس سے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا، جس سے اس کی نماز بھی فاسد نہیں ہوتی ہے، لیکن اگر نمازی نے سجدہ عورتوں کی ہیئت پر زمین سے خوب لگ کر کیا اور اس دوران سو گیا تو اس صورت میں استرخاء مفاصل (اعضاء کے ڈھیلے ہونے) کی وجہ سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا اور نماز بھی فاسد ہو جائے گی، لہذا اس نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (141/1، ط: دار الفكر)
(و) ينقضه حكما (نوم يزيل
مسكته) ... (وإلا) يزل مسكته (لا) يزل مسكته (لا) ينقض وإن تعمده في الصلاة أو غيرها على المختار كالنوم قاعدا ... وساجدا على الهيئة المسنونة ولو في غير الصلاة
(قوله: على المختار) نص عليه في الفتح، وهو قيد في قوله في الصلاة. قال في شرح الوهبانية: ظاهر الرواية أن النوم في الصلاة قائما أو قاعدا أو ساجدا لا يكون حدثا سواء غلبه النوم أو تعمده.
(قوله: وساجدا) وكذا قائما وراكعا بالأولى، والهيئة المسنونة بأن يكون رافعا بطنه عن فخذيه مجافيا عضديه عن جنبيه كما في البحر. قال ط: وظاهره أن المراد الهيئة المسنونة في حق الرجل لا المرأة.
الهندية: (94/1، ط: دار الفكر)
أغمي في صلاته أو جن أو قهقه يتوضأ ويستقبل الصلاة وكذلك إذا نام في صلاته واحتلم يستقبل ولا يبني استحسانا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی