سوال:
مفتی صاحب! میرے بھائی بہن کبیرہ گناہوں (حقوق نسواں، شوہر سے نفرت، ربا، فیشن وغیرہ) میں مبتلا ہیں اور وہ میری فیملی کو بھی بھٹکارے ہیں اور ان کبائر کی طرف دعوت دے رہے ہیں تو کیا ایسی صورت میں میں اپنے بہن بھائیوں سے کنارہ کشی کرسکتا ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ قرآن كريم اور احادیث مباركہ میں صلہ رحمى (رشتہ ناتا جوڑنے) کی بہت فضیلت اور تاکید وارد ہوئی ہے، اور قطع رحمى (رشتہ ناتا توڑنے) سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد بارى تعالى ہے:
ترجمہ: اور تم ڈرو اللہ تعالیٰ سے جن کے نام پر تم دوسروں سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو اور ڈرو تم قرابت کے حقوق ضائع کرنے سے۔ (سورة النساء:1)
پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے بہن بھائی واقعی کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہیں، اور زبانی نصیحت اور سمجھانے سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا تو ایسی صورت میں ان کو گناہ کا احساس دلانے اور راہ راست پر لانے کی غرض سے ان سے ناراضگی کا اظہار کرنا اور اپنے بیوی بچوں کو ان کبیرہ گناہوں سے بچانے کے لیے وقتی طور پر ان کے ساتھ میل جول محدود کرنا شرعاً جائز ہے، البتہ اس بات کا خیال رہے کہ میل جول محدود کرنے سے قطع تعلق کی نیت نہیں ہونی چاہیے، بلکہ مقصد یہ ہو کہ بہن بھائیوں کی اصلاح ہو اور وہ راہِ راست پر آجائیں اور اپنے بیوی بچے ان گناہوں سے محفوظ رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (النساء، الآية: 1)
واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبا O
عارضة الأحوذي: (116/8، ط: دار الکتب العلمیة)
وأما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين، كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها، فليهجره حتى ينزع عن فعله وعقده ، فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين ليلة حتى صحت توبتهم عند اللّٰه۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی