سوال:
ایک لڑکی کی بیس سال پہلے شادی ہوئی، اس کی ایک بچی ہے، ایک سال بعد لڑکی کو طلاق ہوگئی، پھر دو سال بعد لڑکی کی دوسری شادی ہوئی تو پہلا شوہر اپنی بچی کی بالکل بھی خیر خبر نہیں لیتا تھا تو لڑکی کے اس دوسرے شوہر نے کہا کہ بچی کی ولدیت میں میرا نام لکھ دو، اس بچی کے شناختی کارڈ میں بھی اس دوسرے سوتیلے والد کا نام لکھا گیا ہے، بعد میں پتا چلا کہ یہ غیر شرعی کام ہوگیا ہے، لیکن اب شناختی کارڈ وغیرہ سب بن گیا ہے، اب یہ بچی بڑی ہوگئی ہے اور ایک مہینے بعد اس کی شادی ہے تو کیا نکاح میں اس کی ولدیت میں اس کے سگے والد کا نام لینا ضروری ہے؟
جواب: واضح رہے کہ کسی شخص کی نسبت اس کے حقیقی باپ کے بجائے سوتیلے باپ کی طرف کرنا ناجائز اور سخت گناہ کا کام ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنا لازم ہے، البتہ سوتیلے باپ کا نام بطور سرپرست لکھنے کی گنجائش ہے۔
جہاں تک نکاح کا تعلق ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر لڑکی مجلس نکاح میں موجود ہو تو اس کی طرف اشارہ کرکے ایجاب و قبول کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ اس کے والد کا نام لینے میں غلطی ہوجائے، البتہ جان بوجھ کر والد کا نام لیتے ہوئےلڑکی کی نسبت اس کے سوتیلے والد کی طرف کرنا سخت گناہ ہے، لیکن اگر لڑکی مجلس نکاح میں موجود نہ ہو اور اس کے والد کا نام لینے میں غلطی ہوجائے، مثلاً: اس کی نسبت حقیقی والد کے بجائے اس کے سوتیلے والد کی طرف کی جائے تو ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ہے، اگرچہ گواہ اس لڑکی کو جانتے ہوں، لہذا ہر صورت میں نکاح میں لڑکی کی نسبت اس کے سگے باپ کی طرف کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح النووی علی مسلم: (144/9، ط: دار احیاء التراث العربی)
قوله صلى الله عليه وسلم (ومن ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين) هذا صريح في غلظ تحريم انتماء الإنسان إلى غير أبيه أو انتماء العتيق إلى ولاء غير مواليه لما فيه من كفر النعمة وتضييع حقوق الإرث والولاء والعقل وغير ذلك مع ما فيه من قطيعة الرحم والعقوق
الدر المختار مع رد المحتار: (26/3، ط: دار الفكر)
(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح) للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرة وأشار إليها فيصح
(قوله: لم يصح) لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافا لابن الفضل وعند الخصاف يكفي مطلقا والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوبا إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها (قوله: إلا إذا كانت حاضرة إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشارا إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال اقتديت بزيد هذا فإذا هو عمرو فإنه يصح
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی